انگریزی:- یوسف خان
اردو:- نثار احمد صدیقی
موبائل نمبر:- 9546308801
دلیپ کمار ایک ایسی ہستی کا نام ہے جس کے بارے میں جتنی بھی معلومات حاصل کی جائیں کم ہے۔ کچھ لوگ دلیپ کمار کو ایک بند کتاب کہتے ہیں۔ لیکن سچ یہ ہے کہ اس بند کتاب کے کچھ اوراق ایسے بھی ہیں جنہیں کوئی بھی باآسانی پڑھ سکتا ہے۔ یہ بات اور ہے کہ ان صفحوں کو پڑھنے کے بعد بھی دلیپ کمار کی شخصیت کو سمجھنے میں کچھ لوگوں کو مشکل کا سامنا کرنا پڑے۔ کیونکہ اس انوکھی شخصیت میں اتنی گھتیاں ہیں، اتنی پیچیدگیاں ہیں جو ہر آدمی سے سلجھائے نہیں سلجھ سکتی۔ بہر حال! اس شخصیت کی زندگی کی کچھ جھلکیاں ہم یہاں ان ہی زبانی پیش کر رہے ہیں۔۔۔۔ (نثار صدیقی) ہاں! میں ہی یوسف خان عرف دلیپ کمار” ہوں۔ میرا وطن کبھی پشاور ہوا کرتا تھا لیکن اب مکمل ہندوستان ہونے کا فخر مجھے حاصل ہے۔ پشاور کو وطن کہنا اس لئے مناسب ہے کہ وہیں میری پیدائش ہوئی۔ تاریخ بھی یاد ہے۔ 11دسمبر 1922ء ہے، جس میں میرا بچپن گزرا۔ میرے والد محترم کا نام سرور خان تھا۔ بڑا لمبا میرا خاندان تھا۔ یعنی والد کے والد اور انکے والد ، سبھی لوگ پکّے مزہبی اور رسم ورواج کے پابند تھے۔ مجھے یاد ہے کہ ہر جمعہ کی صبح میرے والد صاحب مجھے نماز کے لئے اُٹھا دیا کرتے تھے۔ بچپن میں، میں کچھ زیادہ ہی موٹا تازہ تھا۔ اس لئے والد صاحب کو مجھے اُٹھانے میں دقّت پیش آتی تھی۔ نماز کے لئے والد صاحب وضو کرتے تو مجھے اپنے سائد میں کھڑا کر لیا کرتے تھے اور پھر اپنے ہاتھ سے مجھے بھی وضو کرانے میں مدد کرتے تھے۔ کبھی کبھی پانی بہت ٹھنڈا ہوتا تھا۔ اور جب برف نما پانی میرے چہرے پر پڑتا تو چہرہ جیسے چھل سا جاتا تھا۔ بہر حال! میں ان کے وضو اور نماز کی قدم قدم پر نقل کرتا تھا۔ بچپن کی وہ حرکت بھی یاد ہے جب میں اپنے دادا کی پیٹھ پر چڑھ جاتا تھا اور ان سے گھوڑا بننے کی ضد کیا کرتا تھا۔۔
میرے گھر میں ایک تہہ خانہ تھا جس میں ایک بڑا سا کمرہ تھا ۔ اس کمرے میں دوپہر کے کھانے کے بعد گھر کے سبھی لوگ اپنے بال بچوں کے ساتھ آرام کرنے کے لئے جمع ہوا کرتے تھے ۔ مجھے گرمی کبھی برداشت نہیں ہوئی ۔ بھیڑ بھاڑ اور ہنگامے سے بھی دور بھاگتا تھا ۔ اس لئے جب عورتیں بچوں کے ہجوم کے ساتھ اس ٹھنڈے کمرے میں جمع ہو کر سونے لگتی تھیں تو میں چُپ چاپ وہاں سے بھاگ جایا کرتا تھا ۔ اور پڑوش کی ایک مسجد کے نزدیک پیڑوں سے پھل توڑنا شروع کر دیتا تھا ۔ ایک دن میں نے دیکھا کہ دو بھاری بھرکم پٹھان آپس میں لڑ رہے ہیں ۔ وہ منظر دیکھ کر میں اتنا زیادہ گھبرا گیا کہ پھل میرے ہاتھوں سے چھوٹ گئے اور میں خود بھی گھبراہٹ میں پیڑ سے نیچے آ گرا ۔ پٹھان جب لڑ چکے تو ان کی نظر مجھ پر پڑی ۔ تعجب سے وہ بڑ بڑائے ۔ ” اوہ یہ تو سرور خان کا بیٹا ہے ۔” انہوں نے پوچھا ” تم یہاں اس وقت کیا کر رہے ہو ؟” ان کا سوال سن کر میں ڈر کر بھاگ کھڑا ہوا اور میں اس وقت تک بھاگتا رہا جب تک میں اپنے گھر نہیں پہنچ گیا۔
ایک بار میں اسکول جا رہا تھا ۔ معلوم ہوا کہ میرے پڑوس کے تین بچے ایک سواری بس کے ایکسیڈنٹ میں مر گئے ہیں ۔ ان تینوں کی لاشوں کے ارد گرد بھیڑ دیکھ کر میں بھی وہاں کھڑا ہو گیا ۔ اسی درمیان پولیس آپہنچی اور پوسٹ مارٹم کے لئے لاشوں کو لے جانے لگی ۔ بھیڑ نے روکنا چاہا ، لیکن جب پولیس نہیں مانی تو اس پر پتھراؤ شروع کر دیا ۔ مجبوراً پولیس نے ہوائی فائر کر دیا ۔ میں ڈر کے مارے ایک کار کے پیچھے چھپ گیا ۔ کچھ دیر کے بعد چاروں طرف خاموشی چھا گئی ۔ خوف سے بے حال میں نے گھوم کر دیکھا تو میں اب تک ان لاشوں کے پاس ہی بیٹھا تھا ۔ میری حالت اور بھی خراب ہو گئی ۔ اس حادثے نے ایک لمبے عرصہ تک میرے ذہن پر ایک عجیب سا بوجھ ڈالے رکھا ۔ وہ تین لاشیں میرے دل و دماغ پر ایک گہرا اثر چھوڑ گئیں ۔ سچ پوچھئے تو تریجیدی کردار میں جو مہارت مجھے حاصل ہوئی ہے وہ اس حادثے کا ہی نتیجہ ہے جسے میں آج تک نہیں بھول پایا ہوں ۔ میری پہلی فلم ” جوار بھاٹا” جب ریلیز ہوئی تو اس وقت یہ عالم تھا کہ لوگ مجھے مبارک باد دینے آتے تھے تو میں سہما سہما سا دکھائی دیتا تھا۔ ان دنوں ہماری فیملی کا پھلوں کا کاروبار پشاور سے لی کر ممبئی اور کلکتہ تک پھیلا ہوا تھا ۔ اچانک قسمت نے ایک نئی موڑ لی ۔ میرے بڑے بھائی ایوب خان گھوڑے پر سے گر پڑے جس سے ان کی ریڑھ کی ہڈّی ٹوٹ گئی ۔ اُن کے علاج کے لئے انہیں ممبئی کے مشہور سرجن ڈاکٹر وی ایل پرمار کے پاس لے جایا گیا ۔ ایک بڑے آپریشن کے بعد میرے بھائی کی ہڈّی تو ٹھیک ہو گئی لیکن آگے علاج جاری رکھنے کے لئے انہیں ہر دوسرے ماہ پشاور سے ممبئی لانا پڑ رہا تھا ۔ اس لئے میرے والد صاحب نے ممبئی میں ایک مکان خریدنے کا فیصلہ کیا تاکہ بھائی کا علاج آسانی سے ہو سکے ۔ چنانچہ کرافٹ مارکیٹ میں جہاں ہمارا پھلوں کا کاروبار تھا ، ایک مکان خرید لیا گیا ۔ بعد میں کاروبار کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے ہماری پوری فیملی بھی ممبئی شفت کر گئ۔
پہلا رومانس:- لیکن آب و ہوا بدلنے کے لئے ڈاکٹر کی صلاح پر ایوب خان کو دیولالی لے جانا پڑا جہاں پر ایک بنگلہ لیا گیا تھا۔ دیولالی کے ایک اسکول میں میرا اِڈمیشن بھی کرا دیا گیا تھا۔ میرے بنگلے کے سامنے ایک حسین سی لڑکی رہتی تھی۔ نام بھی اس کا مجھے یاد ہے، کلثوم نام تھا۔ اس لڑکی نے میرے دل میں پہلی مرتبہ محبت کی آگ پیدا کی جب بھی اسکول سے میری چھٹی ہوتی میں کلثوم کو گھر کی کھڑکی پر اِنتظار کرتے ہوئے پاتا ۔ میں کھڑکی کے پاس پہنچتا ، وہ مسکراتی اور جواب میں میں بھی مسکرا کر چل دیتا ۔ اب آپ میری بے وقوفی کا لطف لیجئے ۔ جب کافی دن دیولالی میں رہتے ہوئے گزر گئے تو میں نے کلثوم کے بارے جانکاری حاصل کی ۔ معلوم یہ ہوا کہ وہ تین بچوں کی ماں ہے۔ یہی نہیں بلکہ اس کے کئی دانت بھی غائب تھے ۔ اپنی بے وقوفی پر کافی دنوں تک میں خود سے شرمندہ ہوتا رہا۔
گھر سے بے گھر:- اسی درمیان 1939ء میں دوسرا ورلڈ وار شروع ہوا اور دیولالی کے بنگلے پر ملٹری نے قبضہ جما لیا۔ ہم لوگ بے گھر کر دیئے گئے۔ پھر ممبئی واپسی ہوئی۔ یہاں میرا ایڈمیشن انجمن اسلامیہ ہائی اسکول میں کرایا گیا۔ میں اسکول لائف میں کرکٹ اور فٹ بال کا ایک اچّھا کھلاڑی مانا جاتا تھا۔ تاش اور جادو کے ٹریکس بھی میں نے سیکھے تھے۔ انجمن اسلامیہ سے ہائی اسکول پاس کرنے کے بعد میں نے چوپاٹی کے ویلسن کالج میں داخلہ لے لیا اور وہاں بھی فٹ بال ٹورنامنٹ اور کالج کے دوسرے میچوں میں بھی حصّہ لینے لگا۔ ان میچوں سے میرے کچھ فین بھی پیدا ہو گئے۔ خاص کر ٹیکسی ڈرائیوروں کے درمیان کافی مشہور ہو گیا۔ جب بھی میرا کہی میچ ہوتا تو ٹیکسی فین وہاں پہنچ جاتے اور تالیاں بجا کر میرا حوصلہ بڑھانے لگتے۔ اسپورٹس مین کے طور پر میری شہرت دیکھ کر ماٹونگا کے خالصہ کالج کی طرف سے مجھے آفر ملا اور میں نے وہاں داخلہ لے لیا۔ لیکن یہاں میری پڑھائی بی ایس سی تک ہی ہو سکی کیونکہ میرے والد صاحب مجھے پھلوں کے بزنس میں ٹرینڈ کرنا چاہتے تھے۔ اور اس سلسلے میں وہ مجھے پہاڑی علاقوں خاص کر دہرادون اور نینی تال بھیجنے لگے۔ اسی بھاگ دوڑ میں کبھی یہ خیال بھی نہیں آیا تھا کہ میں کبھی اداکار بنوںگا۔
دیویکا رانی سے ملاقات:- مگر قسمت میری راہ دیکھ رہی تھی۔ جو نہیں سوچا تھا وہ ہونے کا وقت آ رہا تھا۔ ایک مرتبہ میں کاروبار کے سلسلے میں نینی تال گیا ہوا تھا۔ اس جگہ اس زمانے کی مشہور ایکٹریس دیویکا رانی کسی فلم کی لوکیشن دیکھنے ڈائریکٹر امیہ چکرورتی کے ساتھ آئی ہوئی تھیں۔ اپنے شوہر ہمانشو رائے کے انتقال کے بعد ممبئی ٹاکیز کی دیکھ ریکھ دیویکا رانی ہی کرتی تھیں۔ میں دیویکا رانی سے ملا تو انہوں نے میری بڑی تعریف کی اور ممبئی میں ملتے رہنے کو کہا۔ لیکن ممبئی پہنچ کر میں دیویکا رانی سے اپنی ملاقات بلکل بھول ہی گیا اور پونہ جاکر کینٹین کھول لی۔ کئی ماہ تک کینٹین کامیابی سے چلتی رہی مجھے اچّھی طرح یاد ہے۔ اوپننگ کے دن مجھے 42 روپیہ کا فائدہ ہوا تھا۔ اُس وقت کے حساب سے یہ بہت بڑا منافع تھا۔ ایک مرتبہ پھر مجھے دیویکا رانی کی یاد آئی میں ان سے ملنے پہنچا تو انہوں نے میرا انٹرویو لینے کے لئے مجھے اپنے لوگوں کے پاس بھیج دیا۔ جہاں مجھ سے تین سوال پوچھے گئے۔ ” کیا تم نے کسی فلم میں کام کیا ہے؟” میں نے جواب دیا” نہیں”۔ کیا فلموں میں کام کرنا پسند کروگے؟” میں نے کہا ۔۔۔ “ہاں”۔ ” کیا تم اچّھی اردو بول سکتے ہو؟” میرا جواب تھا۔۔۔ “یقیناً”۔۔
انٹرویو لینے کے بعد دیویکا رانی کی طرف سے کوئی جواب نہیں ملا ۔ میں نے دل میں سوچا کہ اداکاری کرنے کا قصّہ شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہو چکا ۔ میں نے سیدھے لوکل ٹرین پکڑی اور ملاڈ سے باندرہ چلا گیا ، جہاں میرے والد صاحب نے ایک دوسرا مکان خرید لیا تھا ۔ جس وقت میں ممبئی میں چائے کی دکان کھولنے کا پروگرام بنا رہا تھا تب ہی مجھے ممبئی ٹاکیز سے خبر ملی کہ میں وہاں پہنچوں ۔ میں جب وہاں پہنچا تو میرے ہاتھ میں 500روپئے ماہوار کے حساب سے ایک کنٹریکٹ تھما دیا گیا ۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ اگر ہمارا کام ٹھیک رہا تو 200 روپئے ماہوار کے حساب سے انکریمنٹ بھی دیا جائے گا ۔۔
اب سوال یہ تھا کہ کیا میرے والد صاحب کو میرا فلموں میں جانا گوارہ ہوگا؟ میرا پردے کا نام جہانگیر رکھا گیا ۔ لیکن کچھ دنوں کے بعد معلوم ہوا کہ اِس نام کا کوئی دوسرا شخص اسٹریگل کر رہا ہے ۔ اس لئے بہت سوچ وچار کے بعد میرا نام بدل کر دلیپ کمار کر دیا گیا ۔ کنٹریکٹ لے کر میں گھر پہنچا تو وہاں سب سے پہلے میں نے اپنے بڑے بھائی ایوب خان کو اپنے فیور میں کیا۔ پھر ان کے مشورہ سے میں نے والد صاحب سے یہ جھوٹ بولا کہ میں نے 500 روپئے ماہوار پر گلیکسو کمپنی میں نوکری کر لی ہے ۔ لیکن یہ جھوٹ مجھے بہت مہنگا پڑا ۔۔
میرے سامنے سخت امتحان کی گھڑی آگئی تھی۔ دوسری عالمی جنگ ہونے کی وجہ سے انڈے، بسکٹ اور مکھن وغیرہ کی بہت کمی ہو گئ تھی۔ میرے والد صاحب نے مجھ پر زور دالنا شروع کیا کہ میں ان چیزوں کو گلیکسوکمپنی کی طرف سے کم داموں پر اپنی فیملی کو پورا کراؤں۔ اب صاحب! میں تو بڑی مشکل میں پڑ گیا لیکن خدا نے ایک بندہ میری مدد کو بھیج دیا۔ یہ بندہ کوئی اور نہیں بلکہ میرا ایک دوست اور خالصہ کالج کا کلاس فیلو تھا۔ میں نے اس سے سارے حالات بتائے تو اس نے ایک ہفتہ تک گلکوز بسکٹ کہیں سے بھی ڈھونڈ کر میری عزت بچاتا رہا۔ بہر حال! کافی دنوں کے بعد میرے والد صاحب کو مرحوم پرتھوی راج کپور کے ذریعہ معلوم ہوا کہ میں نے فلموں میں کام کرنا شروع کر دیا ہے۔ کپور فیملی سے ہمارے گھریلو تعلقات تھے۔ میں اور راج کپور ایک ساتھ کھیل کود چکے تھے۔ اس لئے پرتھوی راج کپور کے کہنے پر والد صاحب کو خاموشی اختیار کرنا پڑا ۔۔
یوں تو ” جوار بھاٹا” (1944ء) کے بعد “پرتیما” (1945ء) ، “ملن”(1946ء) ، “نیل کمل” (1947ء)، “انوکھا پیار” (1948ء) ، “گھر کی عزت”، ” ندیا کے پار” ، جیسی فلمیں آئیں ، لیکن مجھے شہرت دینے والی “شبنم”، “میلہ”، “آرزو” ، “اُڑن کھٹولہ” ، “سنگ دل” ، “ہل چل”، “شہید”، “داغ”، “دیوداس”، “نیا دور”، “مدھو متی”، ” مغل اعظم”، “گنگا جمنا”، “دل دیا درد لیا”، “رام اور شیام”، “کرانتی”(منوج کمار والی)، “مشعل”، “وِدھاتا “، “شکتی “اور کئی دوسری فلمیں ہیں ۔ جس کی وجہ سے آج بھی فلم انڈسٹری میں کافی عزت ملتی رہی۔۔۔۔ میں ان اشخاص کا شکر گزار ہوں ، جنہوں نے میری عزت آج تک قائم رکھا۔۔۔۔۔”۔ (ترجمہ)
پتہ:- مسلم آباد، نزد گوردھن میدان ، ہسپورہ 824120
اورنگ آباد ، بہار