____________________________          

۔۔۔۔۔ نثار احمد صدیقی۔  

موبائل۔۔ 9546308801


اردو شیریں زبان ہے۔۔ اردو بین الاقوامی زبان ہے۔۔ اردو ترقی کر رہی ہے۔۔ اردو ختم ہو رہی ہے۔۔ اردو اپنا وجود کھوتی جا رہی ہے۔۔

مختلف اوقات میں حالات کے تحت دئیے گئے یہ بیانات کس قدر کھوکھلے اور بے اثر ہیں اس پر غور کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔۔ سیدھی سی وجہ ہے لیکن بات سمجھ میں آنے والی نہیں۔۔۔                      

اردو زبان کو ہم کس نظر یہ سے دیکھ رہے ہیں اس کے فروغ کے وسائل اور عملی طور پر کئے گئے یا کئے جا رہے کاموں کے متعلق ہماری واقفیت سنی سنائی باتوں پر ہے یا ہم نے خود اس پر غور وفکر اپنے تجربوں کی روشنی میں کیا ہے۔۔ آئیے تجزیہ کرتے ہیں۔۔۔                                     

اردو کی مدح سرائی میں دئیے گئے درج بالا بیانات اردو مشاعروں کے انعقاد کے ان مواقع کے ہیں۔۔ جب کوئی برسر اقتدار حاکم ان مشاعروں کی صدارت کر رہا ہو اور غیر اردو داں ہو۔۔ یا پھر وہ حضرات جنہوں نے آل انڈیا مشاعرہ کا انعقاد کیا۔۔ یا غیر ممالک میں جا کر اردو مشاعرے کا انعقاد کیا گیا۔۔ یہ خوش بیانی اور خوش فہمی پر مبنی جملے ایسے ہی موقع پر ترنگ میں کہے گئے جملے ہیں۔۔ ان سے اردو کے فروغ کےلئے عملی کارکردگی کی توقع نہیں کی جا سکتی کہ شاعری کرنے کی صلاحیت و ودیعت ہے اور اس کے لئے پڑھا لکھا ہونا کسی ادارے سے سند یافتہ ہونا ضروری نہیں۔۔ اگر یقین نا ہو تو معدودے چند حضرات کو چھوڑ کر ابتدا سے آج تک شاعروں کی فہرست مرتب کرلیں اور ان کی علمی صلاحیت اور تعلیمی معیار و سند یافتہ ہونے کا ثبوت حاصل کر لیں ۔۔ ان حضرات نے اردو شاعری کو اعلیٰ مقام بخشا لیکن اس سے اردو داں طبقہ میں نا تو اضافہ ہوا اور نا ہی اردو کو فروغ حاصل ہوا۔۔۔             

اردو کی ترقی کی تعریف کرنے والا دوسرا طبقہ جو کسی اکٹوپس کی طرح اردو زبان سے چمٹا ہوا ہے وہ طبقہ ہے جو خود سے خود کو دانشور طبقہ میں شمار کرتا ہے۔۔ یہ حضرات یونیورسٹی اور کالجوں میں پروفیسر ہیں۔۔ گڑے مردے اکھاڑ کر انکی ہڈیوں کو ریزہ ریزہ کر کے کسی نتیجہ پر پہنچنے کی سعی ناکام میں زندگی گزار دیتے ہیں۔۔ ان کی نااہلی کم عقلی کم علمی تعمیری ادب میں حصہ داری اردو ادب کو کچھ نئی چیز دینے کی صلاحیت جو نا ہونے کے برابر ہے یہ ساری خوبیاں انہیں نقاد تحقیق ۔۔ پروفیسر صاحب بنانے میں کامیاب رہیں لیکن فروغ اردو کے لئے یہ کسی کام نہیں آسکے کہ فارغ طلبا کے اندر کم سے کم اردو ادب کے مطالعہ اور اس پر غور وفکر کی صلاحیت بھی یہ پیدا نہیں کر سکے ۔۔    

تیسرا گروپ اردو کا بنیا (تاجر) طبقہ ہے جو ملک اور اردو داں طبقہ کو رائج مال فروخت کر رہا ہے اور اکاڈمی صرف کتابوں کی اشاعت و فروخت کر رہا ہے۔۔ انجمن ترقی اردو غالب اکاڈمی اردو اکاڈمی فخرالدین علی احمد کمیٹی قومی کاؤنسل برائے فروغ اردو، مشاعرہ،سیمینار، و کتابوں کی اشاعت میں مالی مدد اور تعاون جیسا کام کر رہا ہے عملی طور پر فروغ اردو کا کام کہاں سے شروع ہوگا؟ کیسے کیا جائے گا؟ کون کریگا؟ اس کے فروغ کے لئے کیا لائحہ عمل اختیار کرنا ہوگا اس کے متعلق نا تو کبھی سمینار کیا گیا۔۔ نا خود ساختہ دانشوروں سے مشورہ کیا گیا۔۔ اور نا اس سلسلے میں عوامی رائے اور مسائل کو جاننے کی کوشش کی گئی۔۔۔   

چوتھا گروپ مدارس اور دینی علوم کے مراکز کا ہے مدرسہ بورڈ اتر پردیش میں بہار سے بھی قدیمی ہے۔۔ بہار میں مدرسہ بورڈ مشہور سوشلسٹ لیڈر اور اردو روز نامہ سنگم پٹنہ کے مالک و چیف ایڈیٹر الحاج غلام سرور (مرحوم) کے وزیر تعلیم ہونے کے بعد قائم کیا گیا جب کرپوری ٹھاکر وزیر اعلیٰ بہار تھے اردو کشمیر کی زبان ہے۔۔ اردو بہار کے مسلمانوں کی زبان ہے جسے حکومت نے دوسری سرکاری زبان کا درجہ دیا ہے لیکن یہ زبان صرف مدارس و اقلیتی اداروں میں لازمی طور پر پڑھائی جا رہی ہے اور اردو داں طبقہ پیدا ہو رہا ہے مدرسوں سے فارغ طلبا دیہی علاقوں میں اپنی محنت اور کاوش سے مدرسے قائم کر رہے ہیں۔۔                     

خود بھی برسر روزگار ہو رہے ہیں اور ساتھ دیگر لوگوں کے لئے بھی روزگار فراہم کر رہے ہیں۔۔ سوال یہ ہے کہ اتر پردیش بہار اور دہلی کے مسلمان اور خود ساختہ رہبران ملت ہمدردان اردو کیا عملی کام کر رہے ہیں؟ بہار میں اردو مترجم کی بہالی کا کام ڈاکٹر جگن ناتھ مصرا نے اپنے دور حکومت میں کیا اور اسے پورے بہار میں دوسری سرکاری زبان قرار دے کر اس کے فروغ کے لئے عملی کام کیا۔۔ لیکن اب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟۔۔.            

بہار کے نقل میں اتر پردیش کے مسلمانوں نے بھی یہ مانگ رکھی جب ملائم سنگھ یادو وزیر اعلیٰ تھے انہوں نے دوسری زبان قرار دے دیا اور مولوی ملائم سنگھ بن گئے لیکن نا تو اسکولوں میں اردو اساتذہ کی بحالی لازمی قرار دیا نا سرکاری دفتروں میں اردو ترجمہ کرنے والے لوگوں کی بحالی کی اس طرح اتر پردیش کے جاہل اور کم عقل مسلمانوں کو بیوقوف بنا کر آج تک رکھا گیا اگر ایسا نہ ہوتا تو سچر کمیشن کی رپورٹ میں اتر پردیش کے مسلم اکثریتی ابادی کے علاقوں کی شناخت کر کے چار ہزار سے زائد اردو پرائمری اسکول دو ہزار کے قریب اردو گرلس مڈل اسکول اور ہزار کے قریب اردو ہائی اسکول کی فوری ضرورت کے تحت اسے قائم کرنے کی سفارش پیش نا کی جاتی جس کو ملائم سنگھ کی حکومت نے کبھی اہمیت نہیں دی اور نا قائم کیا بلکہ اکثریتی مسلم علاقوں کے مسلمانوں کے لاکھوں نام ووٹر لسٹ سے ہی غائب پائے گئے تھے اردو کی مفت روٹی کھانے والوں کی سب سے بڑی تعداد اور دین کو مخصوص سعودی نظریہ سے دیکھنے والوں کی تعداد دلی میں بھی ہے جو عبدالوہاب نجدی کے کاموں کو فروغ دینے اور وہاں کے پیٹرو ڈالر کو حق لگانے میں دل و جان سے گزشتہ ساٹھ سال سے لگے ہوئے ہیں۔۔ دارالعلوم دیوبند، جماعت اسلامی، تبلیغی جماعت، اہل حدیث اور دوسرے دینی اداروں نے دین کو فروغ دینے میں ہمہ تن مصروف ہیں لیکن ان کے سربراہان سے پوچھا جائے کہ دین کے عملی فروغ اور اردو کے فروغ کے لئے انہوں نے کتنے ادارے قائم کئے۔۔ لڑکیوں اور لڑکوں کے اردو تعلیم و دینی تعلیم کے لئے کتنے مراکز قائم کئیے ۔۔ اگر نہیں کیا تو کیوں۔۔؟ یہ سوال نددۃ العلما لکھنؤ سے بھی کیا جا سکتا ہے کہ اپنے ادارہ سے فارغ التحصیل طلباء کی ذہن سازی اس طرح کیوں نہیں کی کہ وہ دیہی علاقوں میں جا کر ادارے قائم کرتے اور دینی علوم کے ساتھ اردو اور دنیاوی تعلیم کو بھی فروغ دیتے یہ طلباء بہار اتر پردیش اور دوسری جگہوں میں جہاں جہالت عروج پر ہے اور دینی تعلیم نا کے برابر ہے وہاں جا کر علم کو اور اردو کو عام کرتے مگر ان کے اندر خود یہ صلاحیت نہیں ہے اور نا ان کا مطالعہ وسیع ہے نا کتابوں سے رغبت یہ رٹے رٹائے علم کے عالم بے صلاحیت ۔۔ غیر دور اندیش، حال مست ، قسم کے لوگ ہیں اگر یہ لوگ اپنی قوم کی تعلیم و تربیت کے لئے عملی طور پر کام کر سکتے تھے۔۔ لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔                   

ہمارے دینی علوم کی بہت ساری کتابیں عربی سے فارسی اور فارسی سے اردو میں منتقل کی گئی ہیں احادیث کا ترجمہ ۔۔ قرآن مجید کا ترجمہ۔۔ تفہیم و تفسیر اور حجت الاسلام حضرت امام غزالی کی کتاب اردو میں  “سعادت کیمیا” کے نام سے موجود ہے جس سے دانستہ اور بہت ساری باتیں مثالیں درا تفصیل سے بیان کر کے مودودی نے کتابیں لکھی ہیں۔۔ جو نئی نسل کے لئے مفید اور کار آمد ہے۔۔ اردو زبان کی ترقی کے لئے علماء کے ساتھ سربراہان قوم اردو پروفیسران آگے آئینگے تب ہی اپنی زبان اردو اور مذہب کو بچا سکتے ہیں۔۔۔ ورنہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟               

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here