واضح رہے کہ پاکستان میں سیاست دانوں پر زبانی الزامات لگتے رہے ہیں لیکن سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف توہین مذہب کے قانون کے تحت بھی ایک ایف آئی آر درج ہوئی ہے، جس کو سیاست دان اور انسانی حقوق کے کارکن انتہائی خطرناک قرار دیتے ہیں۔ توہین مذہب کی اس ایف آئی آر کا تذکرہ امریکی حکومت کی ایک حالیہ رپورٹ میں بھی کیا گیا ہے۔
جبکہ ملک میں بھی کئی حلقے سمجھتے ہیں کہ اس طرح کے رجحان کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے اور سیاستدانوں کو آپس میں اتفاق رائے پیدا کرنا چاہیے کہ وہ مذہبی معاملات کو سیاست میں نہیں استعمال کریں گے۔
واضح رہے کہ نواز شریف کے گزشتہ دور حکومت میں تحریک لبیک پاکستان اور کچھ مذہبی جماعتوں نے اس بات کا تاثر دیا تھا کہ نواز شریف کی جماعت کے کچھ وزرا توہین مذہب میں ملوث ہیں۔ حالانکہ ان عناصر نے کبھی بھی ان الزامات کو ثابت کرنے کے لیے کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کیا لیکن اس کے باوجود نہ صرف نواز شریف پر ایک مذہبی جنونی نے چپل پھینکی بلکہ سابق وزیر داخلہ احسن اقبال پر بھی ایک دوسرے مذہبی جنونی نے قاتلانہ حملہ کیا۔ جب عمران خان پر وزیرآباد میں حملہ کیا گیا تو ان پر حملہ کرنے والے نے بھی مذہب کو حملے کے جواز کے طور پر پیش کیا۔
’ایف آئی آر واپس لی جائے‘
انسانی حقوق کے کارکنان کا کہنا ہے کہ اس طرح کے الزامات صرف ایک فرد کے لیے نہیں بلکہ پورے معاشرے کے لیے خطرناک ہیں۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے شریک چیئر پرسن اسد بٹ نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیوکو بتایا، ’’میرے خیال میں حکومت کو فوری طور پر اس ایف آئی آر یار کو ختم کرنا چاہیے کیونکہ آج اس طرح کی ایف آئی آر کسی ایک سیاست دان کے خلاف استعمال ہو رہی ہے تو کل کسی دوسرے کے خلاف ہوگی۔‘‘ اسد بٹ کے مطابق سیاستدانوں کو جلسے جلوسوں سے خطاب کرنا پڑتا ہے اور وہاں ان کی جانوں کو پہلے ہی خطرات ہوتے ہیں: ’’لیکن توہین مذہب کے الزام کے بعد کوئی بھی جنونی ان کو کسی بھی جگہ ٹارگٹ کر سکتا ہے۔‘‘
’خطرات بڑھ گئے ہیں‘
پاکستان تحریک انصاف سے وابستہ معروف قانون دان اظہر صدیق کا کہنا ہے کہ عمران خان کی جان کو پہلے ہی خطرات ہے اور توہین مذہب کے الزامات کی وجہ سے ان کی جان کو مزید خطرات ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”عمران خان نے جتنی مذہب کی خدمت کی ہے شاید ہی کسی اور رہنما کی ہو۔ لیکن اس طرح کی ایف آئی آر کاٹ کر پی ڈی ایم نے عمران خان کی جان کو مزید خطرے میں ڈال دیا ہے۔ عمران خان کے اوپر 100 سے زائد مقدمات ہیں اور خطرہ ہے ان مقدمات کی سماعت کے دوران ان کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔‘‘ اظہر صدیق کا کہنا تھا کہ ان کی اطلاعات کے مطابق عمران خان کے خلاف توہین مذہب کی ایک ہی ایف آئی آر ہے۔
مذہب کو سیاست کے لیے استعمال نہ کرنے پر اتفاق رائے ضروری
کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ سیاستدانوں کو آپس میں اتفاق رائے پیدا کرنا چاہیے کہ وہ مذہب کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہیں کریں گے۔ سابق ڈپٹی چیئرمین سینیٹ صابر علی بلوچ کا کہنا ہے کہ مذہب انسان کا نجی معاملہ ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”اس طرح سیاستدانوں کے خلاف توہین مذہب کی ایف آئی آر درج کرانا انتہائی خطرناک معاملہ ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ عمران خان نے خود مذہب کو سیاسی فائدے کے لیے استعمال کیا۔ بہرحال پی پی پی اس طرح کی ایف آئی آر کے حق میں نہیں ہے۔‘‘