ہماری ادنیٰ رائے میں پاکستانیوں کو اپنا بھیس جدید دور کے جدید تقاضوں اور پچھلی چند دہائیوں میں ہونے والی ماحولیاتی و ثقافتی تبدیلیوں کے مطابق بدلنے کی ضرورت ہے۔ر گزرتے سال کے ساتھ ہمارا ملک گرم سے گرم تر ہوتا جا رہا ہے۔ اس شدید گرمی میں بھی خواتین اپنے جسم پر کپڑے کی تین تہیں پہنتی ہیں۔ سب سے اوپر دوپٹہ، اس کے نیچے قمیض اور اس اس کے نیچے شمیض، اس سے نیچے نہیں جاتے ورنہ ملک میں زلزلہ آنے کا اندیشہ ہے۔
پچھلی گرمیوں میں ایک جاننے والے کے ہاں جانے کا اتفاق ہوا۔ ان کی بہو پسینے سے شرابور تھری پاس لان سوٹ میں کچن کا کام نمٹا رہی تھیں۔ ان کے دیور اور جیٹھ وہیں موجود تھے۔ وہ ان کی وجہ سے دوپٹہ اتار کر بھی نہیں رکھ سکتی تھیں اور اپنی قمیض بھی بار بار برابر کرنے پر مجبور تھیں۔
گزشتہ برس اپریل میں ہی ملک کے بہت سے حصوں میں درجہ حرارت اپنی بلند ترین سطح پر پہنچ چکا تھا۔ اس مہینے سندھ کے شہر دادو میں 47 ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت ریکارڈ کیا گیا تھا جبکہ کراچی میں 42.5 ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت نوٹ کیا گیا۔ اگلے مہینوں کا حساب آپ خود لگا لیں، نہیں تو انٹرنیٹ کنگھال لیں۔
اس گرمی میں خواتین کو پہننا وہی پڑتا ہے، تھری پیس لان سوٹ۔ باہر نکلنا ہو تو خاندان کی عزت کے حساب سے اتنی ہی لمبی چوڑی چادر۔ خاتون کی رہائش کسی پوش علاقے میں ہو یا ان کا وہاں آنا جانا ہو تو ان تہوں میں کمی ہو سکتی ہے تاہم اس صورت میں معاشرہ ان پر چند لیبل چسپاں کر دیتا ہے۔ دعا منگی کیس سب کو یاد ہے۔ ان کے اغواء کار نے کہا تھا کہ وہ ان کے لباس کی وجہ سے سمجھتے تھے کہ وہ کسی امیر گھرانے سے ہیں۔
سردیوں میں خواتین کے کپڑوں کے لیے مارکیٹ میں کھدر، لینن اور اسی طرح کا دوسرا کپڑا آتا ہے۔ پچھلے کچھ برسوں سے برانڈز ان کپڑوں کے ساتھ شیفون کے دوپٹے دے رہے ہیں۔ ان کپڑوں پر سویٹر یا جیکٹ پہنیں تو اس کے نیچے نظر آنا والا قمیض کا بقیہ حصہ عجیب بھدا سا لگ رہا ہوتا ہے۔ پھر اس کے ساتھ کندھے پر پرس بھی ٹکانا پڑتا ہے، جو بار بار پھسل کر بازو میں آ گرتا ہے۔
اس شدید سردی کے حل کے لیے مناسب کپڑے خریدنے نکلیں تو جیب میں پیسے ہونے کے باوجود اپنی کسمپرسی شدت سے محسوس ہونے لگتی ہے۔ اول تو مناسب گرم اشیاء دستیاب نہیں ہیں، جو ہیں وہ بہت مہنگی ہیں۔ کچھ برانڈز نے تو سویٹرز کو مغربی ملبوسات کی کیٹیگری میں رکھا ہوتا ہے، جیسے مشرق میں سویٹر پہننے کا رواج ہی نہ ہو۔ پیچھے وہی لنڈا رہ جاتا ہے، جو کبھی سستا ہوتا تھا، اب اس کی قیمتیں بھی آسمان کو چھو رہی ہیں۔