شموئل احمد سے گفتگو۔
نثار احمد صدیقی
موبائل نمبر:- 9546308801
[پیدائش- 4، مئی 1943ء، وفات- 25، دسمبر 2022ء ]
*اپنی ابتدائی زندگی کے ذاتی و ادبی کو ائف بتائیے۔؟ **میرے والد مجسٹریٹ تھے۔ سرکاری دورے پر جاتے تو مجھے بھی ساتھ لے جاتے۔ میری عمر اس وقت سات آٹھ سال رہی ہوگی۔ میں وہاں کے تاثرات قلم بند کرتا۔ والد سنتے اور خوش ہوتے ۔ اس طرح طبیعت لکھنے کی طرف مائل ہوئی۔ میری اردو کی پڑھائی باقاعدہ نہیں ہوئی ۔ یہی وجہ ہے کہ مجھ سے اب بھی املا کی غلطیاں سرزد ہوتی ہیں ۔ میرے گھر میں ادبی ماحول رہا ہے ۔ میں نے کرشن چندر وغیرہ کو دس سال کی عمر سے ہی پڑھنا شروع کر دیا تھا ۔ میں ذہین سمجھا جاتا تھا لیکن طالب علم بہت اوسط درجے کا تھا ۔ مجھے نصابی کتابوں سے کبھی دلچسپی نہیں رہی ۔ میرا زیادہ وقت شعر و ادب کے مطالعہ میں گزرتا تھا ۔ میں جب انیس سال کا تھا تو میرا پہلا افسانہ “چاند کا داغ” ماہنامہ “صنم” پٹنہ میں شائع ہوا تھا ۔ افسانہ پڑھ کر والد محترم رات بھر آنگن میں چہل قدمی کرتے رہے ۔ اس وقت میری سمجھ میں نہیں آیا کہ میں نے ایسا کیا لکھ دیا کہ والد کی نیند حرام ہوگئی ۔ لیکن آج میں ان کے تردد کو سمجھتا ہوں ۔ میں نے ان کی اخلاقی قدروں کی نفی کی تھی ۔ کہانی کچھ اس طرح کی تھی کہ ایک عورت کو بچہ نہیں ہو رہا تھا ۔ پھر جب گود بھری تو شوہر نے دیکھا کہ پڑوسی شوکت میاں بنجر زمین پر ہل چلا رہے ہیں ۔ والد کو اس جملے پر اعتراض تھا کہ اتنی کچی عمر میں میں نے اس طرح کیوں سوچا ۔ لیکن میں کہانی سوچ کر نہیں لکھتا۔ کہانی مجھے مل جاتی ہے۔ کہانی قدم قدم پر بکھری پڑی ہے ۔ ہر آدمی کا چہرہ ایک کاغذ ہے جس پر اس کی زندگی کی کہانی لکھی ہوتی ہے ۔ادیب کو کتابوں سے زیادہ آدمی کو پڑھنا چاہئے ۔ میرے حلقہ احباب میں خواتین کی تعداد خاصی ہے۔ ایک راحت کن عورت میری بہت اچھی دوست ہے جس سے ہر موضوع پر کھل کر گفتگو ہوتی ہے ۔ اس سے گفتگو میں بہت سی نفسیاتی گھتیاں سلجھتی ہیں ۔ایک باراس نے مجھ سے کہا تھا کہ بیوی کو گھر میں ہمیشہ دائی بن کر نہیں رہنا چاہئے۔ اسے کبھی عورت بن کر بھی رہنا چاہئے اور میں نے کہانی لکھی تھی ” برف میں آگ” جسے پڑھ کر فاروقی نے مجھے خط لکھا تھا کہ کاش یہ کہانی ” شب خون” میں شائع ہوتی ۔۔
میں سمجھتا ہوں فن کار میں ایک ذرا آوارگی ضروری ہے ۔ میں ہندی میں ایک سواخی ناول لکھ رہا ہوں ” اے دل آوارہ”۔ میں نے یہاں بہت سی باتوں کا اعتراف کیا ہے لیکن یہ تصنیف فی الحال ہندی میں ہی شائع ہوگی ۔ اس میں ہندی سماج کے لوگ زیادہ ہیں ۔۔
*آپ کا ایک افسانہ “سنگھاردان” اپنے وقت میں کافی مقبول ہوا اور اس پر ٹیلی فلم بھی بنی۔ اس افسانہ سے متعلق آپ کا ذاتی نظر یہ کیا ہے ؟ اس میں کیا خوبیاں ہیں ؟ تفصیل سے بتائیے ۔
**بابری مسجد کا جب انہدام ہوا تو مجھے احساس ہوا تھا کہ ایک فرقے کو اس کی وراثت سے محروم کر دینے کی سازش رچی گئی ہے۔ ” سنگھاردان” اس سازش کے خلاف ایک پروٹسٹ ہے لیکن اردو کا پیشہ ورنا قداس تہہ تک نہیں پہنچ سکا۔
*آپ کا افسانوی مجموعہ (سنگھاردان) منظر عام پر آچکا ہے۔ اس کی روشنی میں ادب کے ریسرچ اسکالر کو بتائیں کہ آپ کے افسانے دوسرے ہم عصر افسانہ نگاروں افسانوں سے منفرد کیوں ہیں؟
**میں اس بات کا قائل ہوں کہ بڑا ادیب بننے سے اچھا ہے منفرد ادیب ہونا کہ انفرادیت اپنے آپ میں بڑی ہوتی ہے۔ میرے لہجے کی بے باکی مجھے منفرد بناتی ہے۔ میرے یہاں تشبیہات، استعارے، نفسیات، دروں بینی تصویر کشی اور جملے سازی میں میرا اپنا رنگ ہے۔میری کہانی کا موضوع اپنا اسلوب خود گڑھتا ہے اور ایک دوسرے سے جدا ہے۔ علم نجوم کی اصطلاحوں کو بھی میں نے اپنی کہانیوں میں پرویا ہے جو اپنی جگہ ایک دم انوکھا ہے اور اس کی مثال اردو میں کہیں نہیں ملتی۔۔
*آپ کے ناول اور افسانے پڑھنے سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آپ جنس اور سیاست سے زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ اس کی کوئی خاص وجہ؟۔
** اردو میں جنس کا موضوع ترقی پسند جحان سمجھا گیا ہے۔ آج ہم جس عہد میں جی رہے ہیں وہ پٹے اور زنجیر کا عہد ہے جہاں ہر آدمی کے گلے میں پٹہ ہے اور زنجیر سامنے والے آدمی کے ہاتھوں میں ہے۔ آزادی کے بعد ہمارے سارے سپنے ایک ایک کر کے چوری ہو گئے ہیں۔ جمہوریت کی پری بالا خانے پر بیٹھ گئی ہے۔ اس نے بازار میں اپنے لئے گنبد بنا لیا اور اٹھائی گیرے سے ہم بستر ہوتی ہے۔ آج فاشزم دبے پاؤں نہیں ڈنکے کی چوٹ پر بڑھتا چلا آرہا ہے۔ آج ادب سے ہتھیار کا کام لینا ہوگا۔ عہد کا نقاضہ ہے کہ ہم قارئین میں صحت مند سیاسی رجحان کی پرورش کریں۔ آج ادیب پر سماجی ذمہ داری سے زیادہ سیاسی ذمہ داریاں آن پڑی ہیں۔ آج ہم ادب میں سیاست کو اچھوت سمجھ کر نہیں کترا سکتے۔۔
*آپ کے افسانوں میں فرائیڈ کے سیکس تھیوری(Theory of sex) زیادہ نظر آتے ہیں۔ ایسا کیوں؟ کیا یہ اردو افسانے لئے مضر نہیں ہے؟۔
**میری دلچسپی نفسیات بالخصوص جنس کی نفسیات سے رہی ہے۔ فرائیڈ کے علاوہ میں نے یونگ، ایڈلر، ہیولاک، ایلس اور کرافٹ اینگ کو بھی سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ مجھے جنس کی جمالیات کی تلاش رہی ہے۔ جنس میرے یہاں موضوع نہیں وسیلہ ہے۔ آدمی نے جنس کو مذہب اور اخلاقیات کا زہر دے کر مارنے کی کوشش کی ہے۔ جنس مرا تو نہیں زہریلا ہو کر زندہ ہے۔ میری کہانیاں انسان کے رگ وپے میں سمائے اس زہر کی تلاش کرتی ہیں۔ انسانی رشتوں کو سمجھنے کے لئے نفسیات کا جاننا ضروری ہے اور ادب انسانی رشتوں کی ہی بازیافت کرتا ہے۔ انسان کی داخلیت میں اترنے کے لئے نفسیات اور خاص طور پر جنس کی نفسیات سے کام لینا ہوگا۔ مغرب میں جنس نگاری کی آزادی لارنس نے دلائی ہے اور اردو میں منٹو نے۔ ہر زبان کے ادب عالیہ میں جنس کے لطیف اشارے ملتے ہیں۔ میرے یہاں تو اتنی بھی جنسیات نہیں ہے جتنی”بہشتی زیور” میں ہے جو آپ اپنی لڑکیوں کو جہیز میں دیتے ہیں۔
*آپ اپنی چند نئی کہانیوں کے بارے میں تفصیل سے بتائیے؟۔
* “عنکبوت” ، “ظہار” ، ” اونٹ” ، “سراب”، “مصری کی ڈلی” ، ” القمبوس کی گردن” ، ” جھاگ”، “کایاکلپ” ، میری نئی کہانیاں ہیں جن پر پیشہ ورنا قدبات کرنے سے گھبراتا ہے۔ “عنکبوت” سیکس چیٹنگ کی کہانی ہے۔ جس میں سائبر کے سیکس کلچر میں تیسری دنیا کا آدمی پانی میں نمک کی طرح گھل رہا ہے۔ “ظہار” ایک مسئلہ پر ہے جس سے عام مسلمان نابلد ہے لیکن جس کا ذکر قرآن پاک میں ہے۔ اردو میں آج تک اس موضوع پر کوئی افسانہ نہیں لکھا گیا ہے۔ ” سراب” کلچرل گیپ کی کہانی ہے۔ ” مصری کی ڈلی” میں علم نجوم کی اصطلاحوں سے کام لیا گیا ہے۔ “القمبوس کی گردن” میں دکھایا گیا ہے کہ ہندوستان کی سلطنت جمہوریہ کا ایک پایہ مسلمانوں کی گردن پر ٹکا ہے جس سے خون رستا ہے۔ اقتدار میں آنا ہے تو گردن کا ٹویا اقتدار میں آنا ہے تو گردن بچاؤ۔ “جھاگ” مرد عورت کے بنتے بگڑتے رشتے کی کہانی ہے۔ ” کایا کلپ” میں جنسی جبلت کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے۔
*بہار کے مشہور افسانہ نگار حسین الحق نے ایک جگہ تحریر کیا ہے: “شموئل احمد بدمعاش اور بیکار افسانہ نگار ہے جو افسانہ بننے کے عمل میں مکار کی طرح پینترے بھی بدلتا ہے اور چوکنا بھی رہتا ہے”۔ آپ اس جملے سے متعلق کیا جواب دیں گے؟
**بیکار نہیں مکار کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ بیکار کتابت کی غلطی ہے۔ مجھ سے بڑا مکار حسین الحق ہے اور مجھ سے بہتر پینترے جانتا ہے۔ قرآن پاک میں آیا ہے کہ اللہ خیرالما کرین یعنی اللہ نے تخلیق کاری کو مکر سے منسوب کیا ہے۔ حسین نے فکشن کی نئی اصطلاح ایجاد کی ہے۔ اردو کے پیشہ ور نقاد کو حسین کی پیروی کرنی چاہئے اور اس اصطلاح کو رائج کرنا چاہئے۔۔
*آپ کے شروع کے چند افسانے علامتی و تجریدی نظر آتے ہیں۔ ان افسانوں سے متعلق آپ کیا کہنا چاہیں گے؟۔
**آپ نے صرف سوال کیا ہے مثال نہیں دی۔ میں نے کبھی تجریدی کہانی نہیں لکھی۔ کبھی” شب خون” میں شائع ہونا پسند نہیں کیا۔ علامت نگاری کوئی جدیدیت کی دین نہیں ہے۔ کرشن چندر اور منٹو نے بھی علامت نگاری کی ہے۔ کہانی کا اسلوب موضوع پر مخصر کرتا ہے۔ میں نے جو علامتی کہانیاں لکھی ہیں وہ موضوع کا نقاضہ ہے۔ اصل بات ہے کہانی میں ترسیل ہونی چاہئے۔ جدید علامت نگاروں نے پہلا علامتوں کا ایک فریم بنایا اور اس میں کہانی ٹھونسنے کی کوشش کی۔ اصل علامت نگاری وہ ہے جب علامتیں کہانی کی گہرائی سے پھوٹتی ہیں اور با معنی ہوتی ہیں۔ میں نے محسوسات کی کہانیاں بھی لکھی ہیں لیکن وہ ترسیل کی ناکافی کا شکار نہیں ہوتیں۔ میری کہانی” سبز رنگوں والا پیغمبر” یا” عکس عکس” سیریز کی کہانیوں کو آپ علامتی کہانی کہہ سکتے ہیں لیکن ان میں واقعات کا تسلسل بھی ہے اور یہ کہانیاں سماجی فریم ورک میں اپنے پاؤں ٹکاتی ہیں۔۔
*کیا یہ سچ ہے کہ شمس الرحمن فاروقی نے” سوار” اور اس طرح کے کئی دوسرے افسانے لکھ کر فکشن میں نئے علامتی، استعاراتی اور تاریخی تصوف کی بلندیوں کو چھونے میں کامیابی حاصل کی ہے؟
**یہ سچ نہیں ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ فاروقی نے ما بعد جدید کہانی لکھنے کی کوشش کی ہے۔ فاروقی نے عصری مسائل سے ہمیشہ آنکھیں چرائی ہیں اور میر کے عہد میں پناہ لیا۔ میر کو ان سے چھین لیا جائے تو ان کے پاس کچھ نہیں بچے گا۔ فاروقی کو خود اپنی افسانہ نگاری پر کبھی بھروسہ نہیں رہا اس لئے انہوں نے فیک نام سے اپنے افسانے شائع کئے اور دوستوں سے مشورہ کرنے کے بعد انہیں اپنے نام سے منظر عام پر لایا۔ فاروقی کے افسانے ما بعد جدید افسانے بھی نہیں ہو سکے۔ یہ لغو افسانے ہیں جو اردو افسانے میں اضافہ نہیں کہے جا سکتے۔
*آپ کے ہم عصر افسانہ نگار شوکت حیات کو”نامیاتیت پسند” افسانہ نگار کہا جاتا ہے۔ آپ اسے کیا کہیں گے؟ اپنا نظر یہ پیش کریں۔۔
**نامیاتیت بکواس ہے اور ادب میں قابل قبول بھی نہیں ہے۔ نامیاتیت کہیںexist نہیں کرتی۔ شوکت خود سمجھتے ہیں یہ کھڑاگ جو انہوں نے پھیلایا ہے تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ یہ خود کنفیوژ ہیں اور نامیاتیت کو کبھی انامیت کہہ دیتے ہیں۔ اگر یہ سنجیدہ ہوتے تو اس موضوع پر مقالہ لکھتے اور اس کے مختلف نکات کو اجاگر کرتے اور بتاتے کہ ان کا افسانہ کہاں کہاں اس پیمانے پر پورا اترتا ہے اور اردو افسانے پر اس کے کیا کیا اثرات پڑے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ شوکت حیات جب اپنی بیماری کا اشتہار اخباروں میں دیتے ہیں تو اس دن بازار میں مٹی چاپ ضرور کھاتے ہیں تو ان کی انامیت یا نامیاتیت بھی کچھ اس قسم کی چیز ہے۔۔
*آپ کا دونوں ناول”ندی” اور” مہاماری” کلاسیکی فارم سے بغاوت کرتا ہے۔ آپ اس کے متعلق کیا کہیں گے؟۔
**فارم تو ٹوٹنا ہی چاہئے۔ ہمارا کام ہے فارم توڑنا اور نقادوں کا کام ہے چیخنا۔ جب کوئی تجربہ ہوتا ہے اور فارم ٹوٹتا ہے اور نیا فارم سامنے آتا ہے تو ناقد کو برا لگتا ہے۔ شروع شروع میں وہ اس کی تردید کرتا ہے اور پھر آگے چل کر اسے قبول کرتا ہے اور گن گان کرتا ہے۔ میرے دونوں ناولوں کے ساتھ یہی ہوا ہے۔۔
*آپ کا ناول”ندی” جنسی مسائل کی ترجمانی کرتا ہے۔ اس ناول کو مکمل کرنے کے لئے جس طرح سے علامتی و استعاراتی زبان و انداز میں پیش کیا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کے سر پر اس زمانہ میں جدیدیت کا بھوت سوار تھا۔ اگر ایسی بات نہیں ہے تو پھر یہ انداز بیان کیوں؟۔
**میں نے ہمیشہ جدیدیت کی نفی کی اور کبھی”شب خون” میں شائع نہیں ہوا۔ “ندی” جنسی مسائل پر مبنی نہیں ہے، یہاں جنس کے وسیلے سے عورت کی داخلیت میں اترنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ عورت ہے جو خود کو استعمال ہونے کی چیز نہیں سمجھتی اور فطرت سے ہم آہنگی چاہتی ہے۔ جسے مشین نما مرد سے الجھن ہوتی ہے جو عورت کو اپنے لئے استعمال کرتا ہے۔ ” ندی” مرد کے خود غرض رویے کے تئیں پروٹسٹ ہے۔ فطرت اور مشین کا تصادم بھی اس ناول کا ایک پہلو ہے۔ “ندی” کی زبان قطعی علامتی نہیں ہے۔ تشبیہات، استعارے اور جزئیات نگاری سے ضرور کام لیا گیا ہے جو بیانیہ کا حسن بڑھتا ہے۔ “ندی” کی ہیروئن لمحہ موجود میں جینا چاہتی ہے کہ تم ایک ہی ندی میں دو بار نہیں اتر سکتے کہ دوسرے ہی لمحے ندی کی دھار بدل چکی ہوتی ہے اور وہ دوسری ندی میں بدل چکی ہوتی ہے۔۔
*آپ کے دو ناول نئی تکنیک و نئی فکر کے ساتھ منظر عام پر آئے لیکن اردو دنیا والے نے اسے وہ مقام نہیں دیا جو اردو کے دوسرے ناولوں کو دیا گیا۔ ایسا کیوں؟۔
**”ندی” اپنا مقام بنا چکی ہے اور”مہاماری” پر بھی بحث ہوتی رہی ہے اور اب اس کا دوسرا ایڈیشن بھی شائع ہوا ہے۔ “ندی” کے تو کئی ایڈیشن شائع ہوئے۔ پنگوئن اردو نے بھی اسے شائع کیا اور جرمنی میں اس کا انگریزی ترجمہ بھی شائع ہوا ہے۔ اردو کا ناقد اپنے محلے والوں پر لکھتا ہے یا ان پر جوان کی لابی میں ہیں۔ میں کسی لابی میں نہیں ہوں۔ میں نے کبھی کسی ناقد کو گھاس نہیں ڈالی، لیکن جو معتبر ہیں ان کی قدر ضرور کرتا ہوں۔ پھر بھی” ندی” بہتی رہی اور” مہاماری” کا بھی ہا ہا کار رہا اور وقت خود فیصلہ کرتا ہے کہ کس فن پارے کو دوام حاصل ہے۔
*”مہاماری” اپنے موضوع کے اعتبار سے فرسودہ ناول ہے لیکن انداز بیان اچھوتا ہے، اور یہی معیاری ناول ہونے کا ضامن ہے۔ کیا آپ بتائیں گے کہ اس موضوع پر ناول لکھنے کا خیال کیسے آیا؟ تفصیل سے بتائیں۔۔
**”مہاماری “ کا موضوع فرسودہ نہیں ہے۔ ”مہاماری“ عصری مسائل سے آنکھیں ملاتا ہے اور اپنے عہد کا دستاویز ہے۔ اگر یہ موضوع فرسودہ ہے تو پورا عہد ہی فرسودہ ہے۔ سرکاری ملازمت میں رہتے ہوئے میں نے کرپشن کو بہت قریب سے دیکھا ہے اور ڈیمو کریسی کو پل پل داغ دار ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔ میں کرپشن کا حصہ بھی رہا ہوں اور اس سے لڑنے کی کوشش بھی کی ہے۔ میرا جینا جب دو بھر ہو گیا تو سوچا احتجاج درج کروں۔ ” مہاماری” اس سسٹم کے خلاف احتجاج ہے جس میں رہتے ہوئے بھی آپ مر رہے ہیں اور جس سے باہر رہ کر آپ مارے جائیں گے۔ آج مہاماری ہر طرف پھیلی ہوئی ہے۔ ابھی مظفر نگر میں جو ہوا وہ مہاماری کا حصہ ہے۔ مہاماری کا ہر منظر اس داغ دار جمہوریت کا منظر ہے جس سے آپ انکار نہیں کر سکتے۔
*شمس الرحمن فاروقی کا ناول” کئی چاند تھے سر آسماں” مشرف عالم ذوقی کا” لے سانس بھی آہستہ” عبد الصمد کا “بکھرے اوراق” پیغام آفاقی کا”پلیتہ” غضنفر”مانجھی” اور حسین الحق کا”فرات” سے متعلق آپ کی ذاتی رائے کیا ہے۔ ان ناولوں میں آپ کو کون سا ناول زیادہ پسند ہے اور کیوں؟۔
**فاروقی کا ناول ربر کی اس عورت کی طرح ہے جو دیکھنے میں خوش نما ہے جسے آپ شوکیس میں سجا کر رکھ سکتے ہیں لیکن کوئی حرارت جذب نہیں کر سکتے۔ یہ عورت گونگی اور بہری ہے۔ یہ ہماری زبان نہیں سمجھتی اور ہمارے مسائل سے آشنا نہیں ہے۔ باقی جن ناولوں کا آپ نے نام لیا ہے ان میں عصری حسیت ہے اور مجھے سب پسند ہیں۔۔
*آج کل جو ناول لکھے جا رہے ہیں وہ سب تاریخ، سیاست یا فرقہ پرستی کے موضوع پر لکھے جا رہے ہیں۔ ایسا کیوں؟۔
**فساد کا موضوع اردو ادبیوں کے لئے نوسٹلجیا بن چکا ہے۔ اردو ادیب فساد کے موضوع سے بچ نہیں سکتا۔ وہ ہر وقت عدم تحفظ کے احساس سے گھرا ہوا ہے۔ تاریخی ناول کا دور قاضی عبدالستار کے”داراشکوہ” کے ساتھ ختم ہو گیا۔ آج تاریخی ناول لکھے جا رہے ہیں تو نام بتائیے۔ سیاست کے موضوع سے ہم آج بچ نہیں سکتے۔ عام آدمی کی زندگی میں آج سیاست کا عمل دخل اتنا بڑھ گیا ہے کہ تحریر میں اس کا عکس ناگزیر ہے۔۔
*”کئی چاند تھے سر آسماں” کے مد مقابل کوئی ناول آپ کی نظر میں ہے؟ اگر ہے تو اس کے متعلق کیا کہنا چاہیں گے؟۔
**میں پہلے اظہار کر چکا ہوں۔۔
*پروفیسر احمد سجاد کا یہ خیال کہ”کئی چاند تھے سر آسماں” ناول کو دنیا کی کسی بھی زبان کے شاہکار ناول کے مقابلے میں رکھا جا سکتا ہے۔ اس جملے سے متعلق آپ اپنی رائے دیں؟۔
**آپ کے سر پر فاروقی کیوں سوار ہیں……؟ گھوم پھر کر آپ اسی سوال پر آجاتے ہیں۔ احمد سجاد کا یہ بیان غیر ذمہ دارانہ ہے۔ انہوں نے دوسری زبان کے ناول ہی نہیں پڑھے ہیں۔ یہ فاروقی کے دوست ہیں تو دوستی نبھا رہے ہیں۔۔
*ظہیر انصاری (ایڈیٹر”تحریر نو”،ممبئی) نے ایک سال قبل اپنے اداریہ میں بہت سارے الزامات آپ پر لگائے تھے۔ آپ ان الزامات کی تردید کیسے کریں گے۔ حقیقت واضح کریں؟
**ظہیر انصاری کے رسالے میں میرا زیر قلم ناول”گرداب” قسط وار شائع ہو رہا تھا۔ لیکن ان کے رسالے سے لوبان اور اگربتی کی بو آنے لگی تو میں نے مزید شائع ہونا مناسب نہیں سمجھا اور قسطیں روک دیں۔ چڑ کر انہوں نے مجھ پر دلچسپ الزامات لگائے۔۔
*ہند نژاد افسانہ نگار جتندر بلو (لندن) نے ظہیر انصاری ( مدیر”تحریر نو” ممبئی) سے متعلق ایک خط میں تحریر کیا (جو”نیا ورق”ممبئی میں شائع بھی ہوا تھا) کہ ظہیر انصاری فرقہ پرست اور جماعت اسلامی کے رکن ہیں۔ اس جملے سے متعلق آپ کی کیا رائے ہے؟۔
**میں جتندر بلو سے اتفاق رکھتا ہوں۔ ظہیر انصاری جن سنگھی قسم کے مسلمان ہیں۔۔
*انتظار حسین کا ناول”بستی” بانو قدسیہ کا “راجہ گدھ” انور سجاد کا” خوشیوں کا باغ” انیس ناگی کا” دیوار کے پیچھے” فہمیدہ ریاض کا” کراچی” اور ابو الفضل صدیقی کا” ترنگ” ان پاکستانی ناولوں سے متعلق تفصیل سے یہ بتائیں کہ ان میں کیا خامی و خوبی ہے؟۔
**انتظار حسین کا ناول ہجرت پر مبنی ایک اچھا ناول ہے۔ بانو قدسیہ کا”راجہ گدھ” مرد کی شہوت کے خلاف احتجاج ہے لیکن یہ زیادہ سے زیادہ ایک تانیثی ناول ہے جس میں عورت کے وہ تیور نظر نہیں آتے جس میں استحصال کے خلاف غم وغصہ کا شدید رنگ ہو اور اپنی آزادی کی مانگ ہو۔ “خوشیوں کا باغ” جدید ناول ہے جو کلیونیکیٹ نہیں کرتا۔ میں اسے اچھا ناول نہیں مانتا۔ جو اسے اچھا ناول مانتے ہیں ان سے کہہ کر دیکھئے کہ اس کا تجزیہ کرو تو وہ بغلیں جھانکنے لگیں گے۔ باقی ناول میرے مطالعہ میں نہیں آسکا ہے۔
*رشید امجد، احمد ہمیش، سلام بن رزاق، شوکت حیات، مشرف عالم ذوقی اور حسین الحق کے افسانوں سے متعلق آپ کا کیا نظریہ ہے؟۔
**رشید امجد کی کہانیاں ترسیل کی ناکامی کا شکار نہیں ہوتیں۔ انہوں نے محسوسات کی بھی کہانی لکھی ہے۔ زندگی کے چھوٹے چھوٹے واقعات میں وہ نئی معنویت ڈھونڈ لیتے ہیں۔ احمد ہمیش جدید افسانہ نگاروں میں سب سے ناکام رہے۔ ایک لمبی کہانی لکھی”مکھی” باقی سب کہانیاں ان کی مکھی ہی ہیں۔ سلام بن رزاق زندگی کی بھٹی سے کہانی نکلتے ہیں۔ شوکت حیات کی کہانی اوڑھے ہوئے احساس کی کہانی ہوتی ہے۔ ان کے یہاں سب کچھ اوڑھا ہوا ہے۔ مشرف عالم ذوقی کے یہاں عصری حسیت ہے۔ حسین الحق سماج کی عکاسی میں گھر کی دہلیز سے باہر نہیں نکلتے، ان کے زیادہ کرداراماں، ابا، ماموں، بھابی، بھیا ہوتے ہیں اور کہانی کے آخر میں وہ قاری پر سوال بھی ضرور داغتے ہیں۔
*کیا آپ فکشن کی تنقید سے مطمئن ہیں؟ مفصل جواب دیں۔۔
**اردو میں فکشن کی تنقید خستہ حال ہے۔ گوپی چند نارنگ، شکیل الرحمٰن اور وارث علوی نے تخلیقی تنقید کا نمونہ ضرور پیش کیا ہے لیکن یہ پرانے لوگ ہیں اور اب تنقید کا منظر نامہ بے رنگ ہے۔ اردو کا پیشہ ورنقاد جو اردو کا استاد بھی ہے وہ اگلے ہوئے نوالے چباتا ہے اور نئے لوگوں پر لکھنے کے لئے کہئے تو بغلیں جھانکتا ہے ۔ یہ زیادہ سے زیادہ اپنے محلے والوں پر لکھتے ہیں یا ان پر جوان کے لابی میں ہیں۔ یہ بند دماغ کے لوگ ہوتے ہیں اور نئی بات نہیں سوچ سکتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ ان کا ذہن خاص نظام میں مرتب ہوتا ہے۔ یہ صرف اردو پڑھتے ہیں وہ بھی اردو کا اخبار جس پر شوربہ گرا ہوتا ہے۔ تخلیق کار فکشن کی بہتر تنقید کرتا ہے۔ ممتاز شیریں نے اردو افسانے پر جو مضمون لکھا اس کی اونچائی کو ابھی تک یہ ناقد چھو نہیں سکے۔ ممتاز شیریں نے بھی منٹو کوDiscoverکیا ۔ ان کی باتوں کو بھی اردو کے استاد سمینار میں دہراتے ہیں۔۔
*اج پندرہ سالوں میں ہند و پاک میں بہت سارے ناول لکھے گئے۔ آپ ان ناولوں میں کن کن ناول نگار کے ناول پسند کرتے ہیں اور کیوں؟ خوبیاں بیان کریں۔
**گزشتہ پندرہ سالوں میں اچھے ناول لکھے گئے لیکن بڑا ناول نہیں لکھا گیا۔ ایسا کوئی ناول نہیں لکھا گیا جو شوکت صدیقی کے” خدا کی بستی” عزیز احمد کے” گریز” خدیجہ مستور کے”آنگن” جمیلہ ہاشمی کے” تلاش بہاراں” اور عینی کے”آگ کا دریا” سے آنکھیں ملاتا ہو۔
*قرۃ العین حیدر کا ناول”آگ کا دریا” کو جدیدیت کی دین سمجھتے ہیں، کیوں کہ”آگ کا دریا” میں فلسفے کی جس نہج سے موشگافیاں ہوئی ہیں ان سے یہ حقیقت تسلیم کرنے میں کوئی تامل نہیں ہوتا کہ یہ ناول جدیدیت اور وجودیت کی وکالت کر رہا ہے۔ اپ اس پیر گراف کے متعلق اپنا نظر یہ پیش کریں؟۔
**جدیدیت کا مطلب فلسفہ کی موشگافیاں نہیں ہے۔ جدیدیت کیا ہے یہ کوئی نہیں جانتا۔ خود فاروقی نے جدیدیت پر کوئی مضمون نہیں لکھا اور اس کے نکات کو سمجھنا نے کی کوشش کی۔ ہر کوئی یہی کہتا ہے کہ جدیدیت کی جامع تعریف نہیں ہو سکتی۔ “آگ کا دریا” میں ہند و مت کو جس انداز میں برتا گیا ہے اس میں وجودی رنگ ہے۔ وجودیت کی جڑیں اپنیشد میں ملتی ہیں۔ “آگ کا دریا” میں وقت خود ایک کردار ہے۔
*اردو افسانہ کا مستقبل؟۔
**ہندوستان میں اردو کی نئی نسل تیار نہیں ہو رہی ہے شاہد اختر اور صغیر رحمانی کے بعد نئی نسل کا کوئی افسانہ نگار آپ کے ذہن میں ہے تو مجھے بتائیے۔ وجہ یہ ہے کہ ہندوستان میں اردو کیریئر سے جڑی نہیں ہے اس لئے نئی نسل ہندی کی طرف مائل ہو رہی ہے۔ لیکن پاکستان میں نئے لکھنے والے پیدا ہو رہے ہیں۔ عالمی سطح پر اردو افسانے کا مستقبل روشن نظر آتا ہے۔
(غیر مطبوعہ)۔
پتہ۔ مسلم آباد، نزد گوردھن میدان، ہسپورہ (824120)، اورنگ آباد، بہار
ای میل:- nasiddiqui2011@gmail.com