Homeउर्दू’قصے حقائق سے کہیں زیادہ معتبر‘

’قصے حقائق سے کہیں زیادہ معتبر‘

ہم سبھی کہانیاں سناتے ہیں۔ غاروں کے دور سے لے کر ڈیجیٹکل عکس کے عہد تک، ہر جانب انسان نثر، نظم، گیت، رقص ہر شے میں کہانیاں سناتا نظر آتا ہے۔ انتھروپولیجی تو یہاں تک کہتی ہے کہ یہ کہانیاں نہ ہوتیں تو شاید انسان آج موجود بھی نہ ہوتا۔ ان ہی کہانیوں سے رابطے اور مکالمے کی بنیاد پڑی۔

یہ کہانیاں ہی ہیں جو سماجی تمدن، مثالی ترقی اور انتباہی معلومات کے ذریعے انسانی نسلوں کو ثقافت اور علم منتقل کرتی چلی آ رہی ہیں۔

ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے بھارتی نژاد برطانوی قصہ گو چترہ سندر کہتی ہیں، ”میرے خیال میں کہانی ہر طرف ہر جگہ ہے۔ کیوں کہ اشتہار کہانی ہے۔ کمرہ جماعت میں بچوں کو کچھ سمجھانا کہانی ہے یا میں آج اسکول تاخیر سے کیوں پہنچی، یہ سب قصہ گوئی ہے، کیوں کہ جتنا بہتر قصہ آپ سنائیں گے، اتنا ہی بہتر نتیجہ آپ کو ملے گا۔ ہمارے سیاست دان قصہ گو ہیں۔ وہ اچھا قصہ نہ سناتے تو منتخب نہ ہوتے۔‘‘

پیدائشی قصہ گو

متنوع زبانی، تحریری، ڈیجیٹل اور تصویری میڈیا میں قصہ گوئی بنیادی طور پر آواز اور جسمانی حرکات و سکنات سے صدیوں سے جاری ہے۔ قصہ گوئی میں صرف تحت الفظ نہیں بلکہ نظمیں، آواز کا اتار چڑھاؤ،گیت حتیٰ کہ رقص تک شامل ہوتا ہے۔

ندر، جو بچوں کی کہانی کی لکھاری ہیں، بتاتی ہیں کہ ان پر قصہ گوئی کی صلاحیت بچپن ہی میں منکشف ہوئی۔ زمانہ طالب علمی میں پہلی بار قصہ گوئی پر انعام جیتنے والی سندر کہتی ہیں،”میں کوئی چار یا پانچ برس کی ہوئی، تب سے قصہ گوئی سے جڑی ہوں۔ میرا پورا گھرانہ قصہ گو ہے۔ میری والدہ ڈرامہ رائٹر ہیں میری نانی ہمیں بہت سی کہانیاں سنایا کرتی تھیں۔‘‘

سندر کسی دور میں اپنے گھر ٹھہرنے والے کزنز کو قصے سنایا کرتی تھیں، مگر اب وہ عموماﹰ اسکولوں، کتب خانوں اور ادبی تقاریب میں بچوں کو قصے سناتی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ یوں کہانیوں کے ذریعے بچوں کو قدرتی مظاہر یا موسمیاتی تبدیلیوں کے بارے میں مختلف طریقوں سے باخبر بنایا جا سکتا ہے۔


قصہ گوئی کبھی ختم نہیں ہو گی

چترا سندر سمجھتی ہیں کہ ڈیجٹل دور کی دوڑ دھوپ اپنی جگہ مگر قصہ گوئی اپنی جگہ موجود ہے۔ تاہم قصہ گوئی کے طریقہ ہائے کار اب بدلتے جا رہے ہیں۔ ”انیمیشن قصہ گوئی ہے، اب یہ ایک دوسری ٹیکنالوجی کے استعمال کی جاتی ہے۔ ٹک ٹاک ہو، فیس بک ہو یا ہم کوئی خط لکھیں، یہ سب کہانیاں ہیں۔ ہم اب مختلف ٹیکنالوجی استعمال کر رہے ہیں، مگر قصہ گوئی اپنی جگہ قائم ہے۔‘‘

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Most Popular

Recent Comments