Homeउर्दूمراق مرزا کی ادبی کہانی پر مبنی فلم              "گاندھی دا ہیرو"   ...

مراق مرزا کی ادبی کہانی پر مبنی فلم              “گاندھی دا ہیرو”     

نثار احمد صدیقی

موبائل نمبر:- 9546308801

مراق مرزا فلم انڈسٹری کے ساتھ ساتھ میدان ادب میں بھی اپنی ایک خاص پہچان بنا چکے ہیں ۔ چونکہ ان کے فلمی سفر کا آغاز اسکرین رائٹنگ سے ہوا لہٰزا کہا جا سکتا ہے وہ بنیادی طور پر اسکرین رائٹر یعنی فلموں کے مصنف ہیں ۔ تاہم گزشتہ 15-16 برسوں سے وہ مسلسل ادب کی بھی خدمت کر رہے ہیں اور ہند و پاک کے علاوہ اردو کی دیگر بستیوں سے شائع ہونے والے معیاری رسائل وجرائد میں ان کے افسانے ، تنقیدی و تبصراتی مضامین نیز شعری نگارشات با قاعدگی سے اشاعت پزیر ہو رہی ہیں ۔ اس کے علاوہ ان کی اولین شعری تخلیق “سورج کے آس پاس” شنہ 2013 ء میں منظر عام پر آکر قارئین و ناقدین ادب سے داد و تحسین حاصل کر چکی ہے اتنا ہی نہیں بلکہ سورج کے موضوع پر لکھی گئی 129 غزلوں کی ان انوکھی کتاب کو بہار اردو اکادمی اور یوپی اردو اکادمی نے انعام سے بھی نوازا ہے ۔ اس طرح مراق مرزا کا قریب ڈیڑھ دہائی پر محیط علمی و ادبی سفر بھی ہر اعتبار سے کامیاب دکھائی دیتا ہے ۔۔                      

اگر چہ مراق فلمی دنیا میں گزشتہ 26-27 برسوں سے اپنے قلم کا جادو دکھا رہے ہیں اور اب تک ان کی لکھی ہوئی قریب 40-41 فلمیں منظر عام پر آچکی ہیں لیکن ادب میں جس تیز رفتاری سے انہوں نے اپنی ایک مضبوط اور منفرد شناخت بنائی ہے اس کی مثال کم کم ہی دیکھنے کو ملتی ہے ۔ بہار کے شہر مظفر پور میں پیدا ہوئے مراق مرزا ممبئی کو اپنی کرم بھومی خیال کرتے ہیں ۔ وہ انگریزی ادب کے طالب علم ہیں ۔ انہوں نے انگریزی میں ایم – اے کیا ہے لیکن تعریف کی بات یہ ہے کہ تخلیق ادب کے لیے انہوں نے اپنی مادری زبان یعنی اردو کو وسیلہ اظہار بنایا ہے ۔ اردو کے حوالے سے ان کا ایک مشہور و مقبول شعر ملاحظہ کریں ۔۔                      

وہ میٹھا نغمہ جو سب گنگنا رہے ہیں مراق

مرا خیال ہے اردو زبان میں ہوگا۔     

ہر چند کے مراق مرزا کا فلمی و ادبی دونوں سفر ہر لحاظ سے کامیاب ہے لیکن اس وقت میری گفتگو ان کے ایک تیسرے سفر کی ابتدا پر مبنی ہے ۔ یہ تیسرا سفر ہدایت کاری کا ہے ۔ جی ہاں مراق مرزا ” گاندھی دا ہیرو” نام کی ایک آف بیٹ فلم سے ہدایت کاری کے میدان میں اتر چکے ہیں ۔ گزشتہ دنوں دہلی کے راج گھاٹ پر اس فلم کا مہورت ہوا۔ عامر خان کی فلم لگان ، سنجے دت کی منّا بھائی ایم بی بی ایس اور اجے دیوگن کی گنگا جل جیسی کامیاب فلموں کی ہیروئن گریسی سنگھ اس فلم میں مرکزی کردار ادا کر رہی ہیں ۔ گریسی سنگھ اور مراق مرزا نے گاندھی جی کی سمادھی پر پھولوں کا ہار پیش کر کے شوٹنگ کا آغاز کیا ۔ سونیا مدان، سورودیوان اور جتن پاٹھیکر اس فلم کو پروڈیوس کر رہے ہیں جبکہ موسیقی آنند ملند کی ہے ۔ پیش ہیں اس فلم کے تعلق سے مراق مرزا کے ساتھ ہوئی گفتگو کے چند اقتباسات ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔                

نثار احمد صدیقی: مراق صاحب آپکے فلمی کیریئر سے متعلق جہاں تک میری جانکاری ہے آپ نے زیادہ تر کمرشیل فلمیں لکھی ہیں۔ دھرمیندر، متھن چکروتی، سنیل شٹی، اور آدیتہ پنچولی جیسے منجھے ہوئے اداکاروں کے ساتھ کام کیا ہے۔ آپ کی زیادہ تر فلمیں باکس آفس پر کامیاب رہی ہیں۔ پھر کیا وجہ ہے کہ بطور ہدایت کار آپ نے آف بیٹ فلم بنانے کا ارادہ کیا؟           

مراق مرزا: نثار صاحب! یہ سچ ہے کہ میری کریڈٹ میں زیادہ تر کمرشیل فلمیں ہیں تاہم میں چند آف بیٹ فلمیں بھی لکھی ہیں۔ مثلاً ” مارکٹ” جس میں منیشا کوئرالا نے ایک جسم فروش لڑکی کا کردار ادا کیا تھا جو آج بھی شائقین فلم کے حافظے میں محفوظ ہے۔ اس فلم کے منظر نامے کے لئے مجھے” ہم لوگ” ایوارڈ  سے نوازا گیا تھا۔ اس فلم کے تعلق سے ایک اور اہم بات کہتا چلوں کہ آف بیٹ ہونے کے باوجود یہ فلم ٹکٹ کھرکی پر بے حد کامیاب رہی تھی۔ اس کے علاوہ میری ایک گینگ وار فلم ” نام چین” بھی آف بیٹ تھی اس فلم کے لئے میں نے مکالمے تحریر کئے تھے۔ آدیتہ پنچولی اس فلم کے ہیرو تھے۔ یہ فلم بھی باکس آفس پر کامیاب رہی تھی۔ بعد میں اس فلم سےinspired ہو کر سنجے دت کی فلم ” واستو” آئی۔۔۔                           

نثار احمد صدیقی: آپکے کیریئر گراف پر نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے آپنے متھن چکرورتی کے ساتھ سب سے زیادہ فلمیں کی ہیں۔ اس کی کوئی خاص وجہ؟۔  

مراق مرزا: یہ محض ایک اتفاق ہے۔ میں نے متھن چکرورتی کے ساتھ کل گیارہ فلمیں کی ہیں۔ پہلی فلم تھی”بھیشما”۔ اس فلم کی کامیابی کے بعد مجھے ایک کے بعد ایک متھن چکرورتی کے ساتھ فلمیں ملتی گئیں اور میں لکھتا گیا خوشی کی یہ ہے کہ رب کریم کی مہربانی سے دو ایک کو چھوڑ کر سبھی فلمیں ٹکٹ کھرکی پر کامیاب رہیں اس لئے ان دنوں مجھے متھن چکرورتی کا پسندیدہ رائٹر کہا جانے لگا تھا اور مہینے میں بیس دن اوٹی میں رہنے لگا تھا۔۔  

نثار احمد صدیقی: کہا تو یہ بھی جاتا ہے کہ دھرمیندر اور منیشا کوئرالا کے بھی آپ پسندیدہ رائٹر بن گئے تھے؟۔            

مراق مرزا: دھرم جی کے ساتھ میں نے کل تین فلمیں کی ہیں۔ “لوہ پوروش” “ٹاڈا” اور”ہمت ور”۔ اور منیشا کوئرالا کے ساتھ دو فلمیں۔۔۔ “مارکٹ” اور”چاہت ایک نشہ”۔ دھرم جی اچھی اردو بولتے ہیں اور انہیں اردو لکھنا پڑھنا بھی آتا ہے یہی وجہ ہے کہ اردو والوں کو وہ نسبتاً زیادہ پسند کرتے ہیں۔ رہی منیشا کوئرالا کی بات تو انہیںperformance-oriented کردار زیادہ پسند آتے ہیں۔ میری فلم مارکٹ میں ان کا ایسا ہی کردار تھا۔ غالباً یہی وجہ تھی کہ دوسری فلم بھی انہوں نے ہمارے ساتھ کی۔ اور چند برس قبل جب بحیثیت ہدایت کار ایک فلم کے لئے سائن کرنا چاہتا تھا تو انہوں نے ہماری ہدایت کاری میں کام کرنا منظور کر لیا تھا۔ مگر کسی وجہ سے وہ فلم شروع نا ہو سکی۔                     

نثار احمد صدیقی: مراق مرزا صاحب اب ہم گفتگو کا رخ آپ کی ہدایت کاری میں شروع ہوئی اولین فلم”گاندھی دا ہیرو” کی طرف موڑنا چاہیں گے۔ اس فلم کی کہانی کے بارے میں کچھ بتائیے۔؟۔                

مراق مرزا: 15 افسانوں پر مشتمل میری آنے والی کتاب کا عنوان ہے” گاندھی اور میں” ۔۔۔۔۔۔ اس کتاب میں شامل ہر افسانہ کسی نہ کسی طرح مہاتما گاندھی کی تعلیمات و نظریات سے وابستہ ہے۔ ” گاندھی دا ہیرو” اسی کتاب میں شامل ایک شارٹ اسٹوری ہے جس کو میں نے فلم کے اسکرین پلے میں تبدیل کیا ہے۔           

نثار احمد صدیقی: اس کا مطلب یہ ہوا کہ”گاندھی دا ہیرو” آپ ایک ادبی کہانی پر بنا رہے ہیں؟۔                              

مراق مرزا: جی ہاں۔۔                      

نثار احمد صدیقی : یہ تو بے حد خوشی کی بات ہے۔ اس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ آپ فلم انڈسٹری کے چند حقیقت پسند ہدایت کار مثلاً ستیہ جیت رائے، گرو دت، رجندر سنگھ بیدی، خواجہ احمد عباس اور گلزار کے نقش قدم پر چلنا چاہتے ہیں کیونکہ ان سبھی ہدایت کاروں نے زیادہ تر ادبی کہانیوں پر فلمیں بنائی ہیں۔؟             

مراق مرزا: آپ کا اندازہ بلکل درست ہے۔ آپ نے جن ہدایت کاروں کا ذکر کیا ہے یہ سبھی میرے پسندیدہ ہدایت کار ہیں۔    

نثار احمد صدیقی: اب ایک سوال اس فلم کی کاسٹنگ کو لیکر ہے۔ اس فلم کے لئے گریسی سنگھ کے انتخاب کی کیا وجہ رہی؟ آپ منیشا کوئرالا کو بھی سائن کر سکتے تھے؟۔                                         

مراق مرزا: اس میں کوئی شک نہیں کہ منیشا کوئرالا بہت اچھی اداکارہ ہیں اور میں مستقبل قریب میں ان کے ساتھ بطور ہدایت کار کوئی فلم ضرور کروں گا لیکن”گاندھی دا ہیرو” میں جوسسٹر کرسٹینا کا کردار ہے اس کے لئے گریسی سنگھ سے بہتر کوئی اور نہیں ہو سکتا تھا۔۔                       

نثار احمد صدیقی: جیسا کہ دوران گفتگو ظاہر ہوا کہ گریسی سنگھ اس فلم میں مرکزی کردار نبھا رہی ہے پھر اس کا جو ٹائٹل ہے”گاندھی دا ہیرو” آپ اسے کس طرحjustify کریں گے؟۔               

مراق مرزا: دراصل اس کہانی کے دو مرکزی کردار ہیں۔ ایک دس بارہ سال کا بچہ ہے، شوم گاندھی اور دوسرے سسٹر کرسٹینا یعنی گریسی سنگھ۔ کہانی ان ہی دو کردار کے ارد گرد گھومتی ہے۔۔            

نثار احمد صدیقی: کہا جا رہا ہے کہ یہ فلم گاندھی کی تعلیمات پر مبنی ہے تو اس کے ذریعے آپ عوام کو کیا پیغام دینے جا رہے ہیں؟۔                                           

مراق مرزا: اس سوال کے جواب میں میں بس اتنا کہوں گا کہ یہ ایکmessage-oriented فلم ہے اور اس میں ہر کلاس کے لوگوں کے لئے کچھ سندیس ہے۔ اس کے علاوہ یہ ایک ایسی فلم ہوگی جسے ایک فیملی کے تمام افراد ایک ساتھ بیٹھ کر دیکھ سکیں گے۔۔                            

نثار احمد صدیقی: مراق مرزا صاحب آپ نے ہم سے بات چیت کے لئے وقت نکالا اس کے لئے بے حد شکریہ۔۔           

مراق مرزا: نثار صاحب آپ کا بھی بہت شکریہ۔۔                

 ( غیر مطبوعہ)    

پتہ:۔  مسلم آباد نزد گوردھن میدان، ہسپورہ (824120) اورنگ آباد ، بہار

موبائل نمبر:۔ 9546308801

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Most Popular

Recent Comments