Homeउर्दूکتاب’’فراق کی شاعری‘‘ کا ہندی ترجمہ کا اجرازبان شعور کا ہاتھ پاؤں...

کتاب’’فراق کی شاعری‘‘ کا ہندی ترجمہ کا اجرازبان شعور کا ہاتھ پاؤں ہے: وجے رائے


رگھوپتی سہائے’’ فراق گورکھپوری‘‘ نہ صرف اردو بلکہ ہندوستانی ادب کے اس دور کے شاعر تھے جنہوں نے اپنی شاعری کی بدولت اردو ادب میں ہندوستانی رنگ و آہنگ میں رچا بسا دیا ۔  انہوں نے اپنی فکر اور تجربے کی وجہ سےاردو شاعری کو مکمل طور پر ہندوستانی رنگ میں رنگ دیا۔ فراقؔ نے جس طرح اردو شاعری کی خدمت کی اس کے ذریعہ آنے والی نسل ان کے طرز کی پیروی کرتے ہوئے اردو شاعری کو وسعت دی۔
پروفیسر افغان اللہ خان کی اردو میں شائع ہونے والی کتاب ’’ فراق کی شاعری‘‘ کو سمجھنے کا وہ راستہ ہے جس کے مطالعہ کے بعد ہم اردو شاعری میں ہندوستانی رنگ و آہنگ کو بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں۔ پروفیسر افغان اللہ خان کی خواہش تھی کہ اس کتاب کا ہندی میں ترجمہ کیا جائے، تاکہ ہندی پڑھنے والے اور ہندی ادب کے چاہنے والے فراقؔ کی شاعری کو بہتر طور پر سمجھ سکیں۔ یہ کام ان کے پہلے پی ایچ ڈی اسکالر ڈاکٹر وضاحت حسین رضوی نے کیا۔
اس کتاب کا آج اتر پردیش پریس کلب، لکھنؤ میں رسم اجرا ہوا ، جس کے مہمان خصوصی سابق ڈپٹی انفارمیشن ڈائریکٹر اور ادبی میگزین’’ لمی‘‘ کے چیف ایڈیٹر وجے رائے کی صدارت میں ہوا۔ اس موقع پر اپنے خطاب میں انہوں نے کہا کہ زبان شعور کا ہاتھ پاؤں ہے۔ ہندی کے مشہور شاعر دھومل کے ایک قول کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ شاعری آدمی ہونے کی تمیز ہے۔ اس کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے وجے رائے نے کہا کہ فراق کی شخصیت اور شاعری کے ساتھ ساتھ گورکھپور کی تاریخ بھی اس کتاب میں پڑھی جاسکتی ہے اور انہوںنے مزید کہا کہ کسی ادبی کتاب کا ترجمہ بہت مشکل کام ہےانہوں نے خوشی کااظہار کرتے ہوئےکہاکہ اس کتاب کو اس کی شایان شان ہندی میں ترجمہ کیا گیا ہے ۔ اس کتاب کے ذریعہ فراق کو بہتر طور پر سمجھنے کی راہ ہموار ہوگی ۔
پروفیسر افغان اللہ خان کی بھانجی نغمہ سلطان جو کہ کرامت حسین پی جی کالج لکھنؤ میں سنسکرت کی اسسٹنٹ پروفیسر ہیں، نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
ہندی اردو کے مشہور ادیب و افسانہ نگار شکیل صدیقی نے اپنے خطاب میں کہا کہ وضاحت حسین رضوی نے اس کتاب میں روح پھونک دیاہے ۔انہوں نے کہا کہ ترجمہ کا کام بہت مشکل ہےایک مترجم ہی اس چیز کو بہتر طور پر سمجھ سکتا ہے کہ ترجمہ کا کام وہ بھی کسی ادبی کتاب کا ترجمہ بہت مشکل ہوتا ہے ۔ انہوں نے کہاکہ ڈاکٹر رضوی نے اس کتاب کو لغتی ترجمہ ہونے محفوظ رکھا ہے ۔ اردو ادب کے اچھے شاعر اور فارسی زبان کو جاننے والے سنجے مشرا شوق نے کہا کہ فراق کی شاعری ہندوستانی ثقافت کی خوبصورت عکاس ہے۔انہوں نے ڈاکٹر وضاحت حسین رضوی کے ترجمہ کو منفرد قرار دیا۔آل انڈیا ریڈیو کے سابق پروگرام افسر پرتل جوشی نے کہا کہ میں ان خوش نصیب لوگوں میں سے ہوں جنہوں نے فراق کو اپنی زندگی کے آخری دور میں بہت قریب سے دیکھا ہے۔جناب جوشی نے کہا کہ میرا تعلق بھی الہ آباد سے تھا اس لیے مجھے یہ سعادت بار بار ملی۔فراق کی کتاب پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ ایک بہت ہی عمدہ ترجمہ ہے اور یہ کتاب ہندی اور اردو کے درمیان فراق کی شاعری کو سمجھنے میں پیدا ہونے والے خلا کو دور کرنے میں مددگارثابت ہوگی۔
 اسسٹنٹ پروفیسر، شعبہ تاریخ، اسلامیہ ڈگری کالج محترمہ تبسم خاںنے اس موقع پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے ہندی ترجمے کو سراہتے ہوئے فراق کی شاعری پر تفصیل سے روشنی ڈالی اور کہا کہ اس ترجمے کو پڑھنے کے بعد فراق کی شاعری کو سمجھنے میں آسانی ہوگی۔
گورکھپور سے تشریف لائے ڈاکٹر عبید اللہ چودھری جو کہ موجودہ دور میں ایک اچھے افسانہ نگارتسلیم کیے جاتے ہیںانہوں نےافغان اللہ خان سے اپنے پرانے تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے ان کے شاگرد ڈاکٹر رضوی کے کاموں کی تعریف کی اور کہا کہ یہ کتاب وقت کی ضرورت تھی ۔
اس موقع پر روزنامہ اردو آگ کے سابق ایڈیٹر ڈاکٹر اکبر علی بلگرامی نے بطور شاگرد اپنے جذبات کا اظہار کیا اور ڈاکٹر وضاحت حسین رضوی کی کتاب پر روشنی ڈالی۔ پروگرام کے آغاز میں ڈاکٹر وضاحت حسین رضوی نے ڈاکٹر افغان اللہ کی منشا کو بطوروصیت  آگے بڑھانے پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس کام سے مرحوم افغان اللہ خان کی روح کو تسکین حا صل ہو گی ۔ پروگرام کے دوران فراق کی شاعری ہندی ایڈیشن کی رونمائی ہوئی۔پروگرام کی نظامت کے فرائض فرزانہ مہدی نےانجام دیا ۔ اس پروگرام میں لکھنؤ کے ہندی اور اردو کے مشہور و معروف ادیب، شاعر، نقاد اور ادب سے محبت کرنے والے موجود تھے۔
…………………

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Most Popular

Recent Comments