حیدرآباد میں ہندوستان کا سب سے پہلا میڈیکل اسکول قائم کیا گیاجس کا ذریعہ تعلیم اردو زبان تھی۔جب ناصر الدولہ بیمار ہوئے تو کوئی یونانییا آیورویدک ان کا علاج کرنے کے قابل نہیں تھا۔ برطانوی ریذیڈنسی سرجن، ولیم کیمبل میک لین نے ایلوپیتھک علاج کا استعمال کیا اور نظام کی بیماری کا علاج کیا۔ اس کے بعد حاکم نے اسے ‘خلاعت’ (شاہی لباس) عطا کیا اور کہا کہ اگر یہ علم ہماری مملکت کے لوگوں کو سکھایا جائے تو ہماری عزیز رعایا کو بہت فائدہ پہنچے گا۔ نظام نئے علاج سے متاثر ہوئے اور حیدرآبادمیڈیکل اسکول وجود میں آیا۔
حیدرآباد میڈیکل اسکول کا بنیادی مقصد مقامی نوجوانوں کو اردو کے ذریعہ یورپی میڈیسن سکھانا تھا، جس سے یہ ہندوستان کا پہلا کامیاب مقامی میڈیکل اسکول بن گیا۔ خیال یہ بھی تھا کہ میڈیسن اور سرجری کے ایلوپیتھک پریکٹیشنرز کے ایک گروپ کو تربیت دے کر تیار کیا جائے جو نظام کی حکومت کے لیے آزاد طبی چارج سنبھالنے کے اہل ہوں۔ ریاست تلنگانہ میں جدید طبی تعلیم اور صحت عامہ کے ادارے نظاموں کے مرہون منت ہیں کیونکہ شاہی خاندان کے بچوں کو طب کی تربیت کے لیے حیدرآباد میڈیکل اسکول میں بھیجا جاتا تھا۔
ڈاکٹر میکلین اور ان کے ساتھیوں کی دو دہائیوں کی محنت سے طب پر کتابوں کا اردو میں ترجمہ ہوا۔ اس مختصر عرصے میں طب کی مختلف شاخوں میں چالیس درسی کتابیں تیار ہو چکی تھیں۔ یہ کتابیں جو حیدرآباد کے میڈیکل اسکول میں استعمال کے لیے تیار کی گئی تھیں، نقل کرکے ہندوستان کے دوسرے میڈیکل کالجوں کو بھیجی گئیں۔
ہندستانی پرچار سبھا کے زیر اہتمام گول میز کانفرنس میں جناب فیروز پیچ (ٹرسٹی واعزازی سیکرٹری ) نے مہمانوں کا استقبال کیا اور تحسینی کلمات سے نوازتے ہوئے مبارکباد پیش کی۔ انہوں نے کہا کہ “ہمارا ادارہ لگاتار۸۰ برس سے اردو اور ہندی ادب کے لیے کام کر رہا ہے۔”
جناب سنجیو نگم(ڈائریکٹر) نے کہا کہ” ہمارے ملک میں آزادی کے 75 سال بعد بھی خواہ وہ ڈاکٹر ہو، وکیل ہو، چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ ہو یا کوئی اور اگر اسے انگریزی میں مہارت نہیں ہے تو اسے نوکری نہیں مل سکتی۔ یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ نئے تعلیمی نظام کے نفاذ کے بعد ہندوستانی زبانیں زوال پذیر ہوتی چلی گئیں۔ اردو اور ہندی زبان میں میڈیکل کی تعلیم سےہمارے ملکہندوستان کی سمت بدل جائے گی۔”
انیل جوشی (مرکزی ہندی انسٹی ٹیوٹ کے نائب صدر) نے کہا کہ”انگریزی کے علم کو دانشوری کا مترادف سمجھا جاتا ہے، جب کہ ایسا نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا کے 20 بڑے ممالک جو ٹیکنالوجی کے لحاظ سے امیر ہیں جن کا جی ڈی پی اچھا ہے، ان میں سے 16 اپنی زبان میں میڈیکل، انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر یہ لوگ اپنی زبان میں کام کر سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں۔”
اس کانفرنس میں پورے ہندوستان سے مشہور و معروف اشخاص نے “طبی تعلیم بذریعہ اردو اور ہندی زبان” کے موضوع پر مقالہ پیش کیا۔
ہندستانی پرچار سبھا کی جانب سے جناب سنجئے مانجریکر، جنابراکیش کمار ترپاٹھی، محترمہ ناہیدہ خان، محترمہ اپرنا نے اس تقریب کے نظم کو خوش اسلوبی اور پوری ذمہ داری سے سنبھالا۔