اردو کے بزرگ صحافی اختر یونس قدوائی آج سوگوار آنکھوں کے درمیان سپردِ خاک کر دیے گئے۔ ان کا 23 مارچ کو لکھنو میں انتقال ہو گیا تھا جس کے بعد تعزیت کا ایک طویل سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ اختر یونس قدوائی ستمبر 1927 میں بارہ بنکی میں پیدا ہوئے تھے۔ لکھنؤ کے امیرالدولہ اسلامیہ انٹر کالج سے انٹرمیڈیٹ کیا اور 1947 میں لکھنو یونیورسٹی سے گریجویشن کے بعد 1950 میں ایم اے کیا۔
اختر یونس قدوائی کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ قاضی رفیع الدین سندیلوی کی کوششوں سے صحافت میں آئے۔ انھوں نے فرنگی محل سے شائع ہونے والے روزنامہ ’ہمدم‘ میں ملازمت کی۔ کچھ عرصہ ’تنویر‘ میں بھی کام کیا۔ بعد ازاں 1951میں روزنامہ ’سیاست‘ کانپور سے وابستہ ہو گئے۔ انھیں اپریل 1970 میں روزنامہ ’قومی آواز‘ لکھنو میں کام کرنے کا موقع بھی ملا جو ریٹائرمنٹ تک کم و بیش بیس سال تک جاری رہا۔ وہ ’قومی آواز‘ میں نیوز ایڈیٹر تھے۔اختر یونس قدوائی کے انتقال پر مشہور صحافی عبید ناصر نے اظہارِ افسوس کرتے ہوئے کچھ پرانی یادوں کو تازہ کیا۔ انھوں نے اپنے ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں لکھا کہ ’’اختر صاحب نے ہم جیسے نہ جانے کتنے صحافیوں کو قلم پکڑنا سکھایا تھا۔ ان کا سکھانے اور سمجھانے کا انداز بھی نرالا تھا۔ مثلاً ایک دن میں نے خبر میں لکھا ’مسلح ڈکیتی‘، اختر صاحب میری میز کے پاس آئے، ایک پرزہ رکھا اور چلے گئے۔ کھول کر دیکھا تو اس میں لکھا تھا ’قانون کی نظر میں ڈکیتی مسلح ہی ہوتی ہے، یعنی اگر اسلحہ کا استعمال ہو تو ہی ڈکیتی ہوتی ہے ورنہ چوری، زبردستی چھین لینا وغیرہ کہا جائے گا۔‘ ایسی ہی چھوٹی چھوٹی باتوں سے وہ خبر نویسی سکھاتے تھے۔‘‘