از: فردین احمد خان
[پیلی بھیت، یو-پی]
تمہید
انسانی طبعیات کے ماہرین جانتے ہیں کہ بنی نوع انساں کی ثقافت ایک مدنی اور عمرانیپہلو کی حامل ہے ۔ آدم زاد گروہوں میں رہتے ہیں اور اجتماعی زندگی بسر کرتے ہیں۔ اولاً ، انسان اپنے ہم سایہ کے ساتھ ایک گھر کی بنیاد رکھتا ہے، وہی ایک گھر دوسرے گھروں سے متعارف ہوتا ہے ان کے درمیان رہ کرآپس میں مربوط ہوتا ہے اور اسی طرح تدریجی مراحل طے کرتے ہوے ایک معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔ چوں کہ انسان مدنی طبیعت رکھتا ہے اس کے لیے اجتماعی زندگی نا گزیر ہے ، نہ تو وہ تن تنہا بیابانوں میں حیات بسر کر سکتا ہے اور نہ ہی یہ اس کے مقصد حیات کو تکمیل تک پہنچا سکتا ہے ۔پھر یہ بات بھی نا قابل تردید ہے کہ ہر انسان ایک ہی طرح کا نہیں ہوتا بلکہ انسانی اوصاف میں کثیر اختلاف موجود ہے ۔ ہر انسان کی طبیعت، پسند ناپسند ،اخلاقیات ، نظریات و افکار اور روح کا میلان ایک سا نہیں ہوتا ، بلکہ ان کا رنگ ، نسل ، مذہب، پیشہ ، نشو نما سب الگ ہواکرتے ہیں ۔
ہاں یہ بات قابل ذکر ضرور ہے کہ اگرچہ انسانوں میں آرا کا اختلاف ہونا ایک فطرتی امر ہے مگر اسی امر کے چلتے ماضی اور حال میں (اور بہت ممکن ہے مستقبل میں بھی)انسانوں کے درمیان تنازع ، جدال و قتال ہوتا آیا ہے اور بہت بربادیاں ہوئی ہیں ۔ چاہے وہ تیس سالہ جنگ ہو جو کہ یورپی ممالک میں مذہبی اختلافات کے سبب لڑی گئی تھی جہاں قدیم و جدید عیسائی افکار کے حامل گروہ بر سر پیکار تھے، یا پہلی عالمی جنگ ہو جو کہ سیاسی اور زمینی اختلافات کی بنا پر لڑی گئی تھی، اول ذکر کردہ جنگ میں تقریباً ایک بلین لوگ ہلاک ہوے جبکہ دوسری میں ایک کروڑ جانیں ہلاک ہوئیں۔ ظاہر ہے کہ اختلافات کی یہ شدت اور اس کے نتائج ہرگز قابل تحسین و ستائش نہیں۔ ان حقائق کو ذکر کرنا اس لیے بھی ضروری ہے کیوں کہ ماضی میں یہ جتنی اہمیت کے حامل تھے حال میں اس سے کہیں زیادہ اہم ہو چکے ہیں ۔ زمانے کا تغیر و تبدل کسی سے مخفی نہیں ہے ، پچھلے پچاس سالوں میں جو انٹرنیٹ اور کمپیوٹر سائنس نے ترقی حاصل کی ہے اس کے سبب پوری دنیا ایک مصنوعی تار سے بندھ چکی ہے اور ذرائع ابلاغ بے حد آسان اور دست یاب ہو چکے ہیں۔ آج جاپان کے جزیرہ میں بسنے والا شخص امریکہ کے جنگلوں میں رہنے والے ہم سایہ سے جب چاہے آن لائن ملاقات اور گفتگو کر سکتا ہے ۔ دنیا کے شمالی کونے میں برف سے ڈھکے پہاڑوں میں سکونت پزیر آدمی افریقہ کے سہارا ریگستان میں رہنے والے شخص سے تبادلہ خیال کر سکتا ہے ۔ غرض یہ کہ جمیع بنی آدم اب ایک عالمی سوسائٹی میں تبدیل ہو چکے ہیں، اور ہماری ذمہ داریاں اب پہلے سے کہیں زیادہ ہو چکی ہیں۔ کیوں کہ اب ہمارے رویہ کا محور کوئی ایک بستی یا شہر یا ملک نہیں بلکہ پوری دنیا ہے ۔
معاشرتی انتہا پسندی اور اس کے اسباب
قدیم زمانے سے ہر معاشرے میں کچھ لوگ ایسے ضرور رہے ہیں جنہوں نے سماجی نظم و ضبط کو تہ و بالا کرنے کی کوششیں کی ہیں، معاشرے میں فساد و فتنہ مچایا ہے اور لوگوں کے حقوق پامال کیے ہیں۔ ایسے ہی لوگوں کو انتہا پسند ، تشدد گر اور آج کے دور میں دہشت گرد کہا جاتا ہے ۔ اس بات کا پورا اعتراف کرتے ہوے کہ فساد گروں کی کئی اقسام اور اغراض و مقاصد ہوا کرتے ہیں، ہم اپنی گفتگو کو صرف انہی افراد پر مرکوز کریں گے جن کا فساد انتہا پسند فکر کی پیداوار ہوتا ہے۔ کیوں کہ دیگر قسم کے تشدد گر اور ان کی فکر کا دائرہ ایک حد تک محدود رہتا ہے مگر انتہا پسندی ایک ایسی وبا ہے جس میں کثیر افراد کی سوچ و فکر کو پراگندہ کیا جا سکتا ہے ۔ آگے چل کر ہم دیکھیں گے کہ انتہا پسند فکر کیوں کر جنم لیتی ہے، اس میں کون سے فلسفے کار فرما ہوتے ہیں اور انہیں سمجھنا کتنا ضروری ہے ۔
نظریۂ سماجی شناخت میں ہم اور وہ کا فلسفہ
ہر عمل کے پیچھے عموماً ایک فکر ہوا کرتی ہے ۔ فکر دل و دماغ میں تحریک پیدا کرتی ہے اور پھر یہی تحریک عمل کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے۔ یعنی یہ کہا جاے تو غلط نہ ہو گا کہ عمل کو سمجھنا اور اس کی روک تھام کے اسباب پیدا کرنا تو ثانوی تدبیر ہے اول تو اس کے پیچھے جو فکر کار فرما ہے اسے سمجھ کر اس کی خامیوں کو اجاگر کرنا ہے ۔ فکر ہی نقطۂ آغاز ہے ، فکر کو روکیے عمل اپنے آپ رک جاے گا۔ یہاں ہم انتہا پسندی اور اس کے نتیجہ میں ہونے والے تشدد کے دروں موجود فکر اور اس فکر کی نفسیاتی حیثیت و ماہیت کو سمجھنے کی کوشش کریں گے۔
معاشرتی نفسیات میں فلسفہء” ہم” اور “وہ “در اصل نظریۂ سماجی شناخت کا ایک حصہ ہے اور اس کا اصل مطلب فلسفہء”ہم”بنام یا بمقابلہ” وہ” ہے ۔ سماجی شناخت کا نظریہ جو کہ ہنری تاج فیل کا وضع کردہ ہے یہ کہتا ہے کہ ہر انسان دنیا میں اپنی سماجی شناخت کا خواہاں ہوتا ہے ،اس کی مدنی طبیعت یہ چاہتی ہے کہ سماج میں اس کا دوسروں سے تعلق ہو، اور اس تعلق کی بنا پر معاشرے میں اس کا ایک مقام اور رتبہ ہو۔ اپنی سماجی شناخت کی اس تلاش میں انسان خود کو مختلف گروہوں سے متعلق تصور کرتا ہے ، مثلاً ایک رنگ کا ہونے کی بنیاد پر خود کو سفید یا سیاہ یا سرخ فام گروہ میں تصور کرنا، یا ایک مذہب کا ہونے کی بنیاد پر خود کو اس کا مذہب کا پیروکار تصور کرنا ، یا کسی ایک سکول یا کالج سے ہونے کی بنا پر خود کو وہاں کا فیلو تصور کرنا ۔ یہ تصور انسان کو ایک جماعت کا فرد ہونے کا احساس دیتا ہے اور یہی اس کی شناخت کا ایک ضروری حصہ ہوتا ہے ۔ اپنی جماعت میں انسان خود کو محفوظگردانتا ہے ، وہاں سے پذیرائی چاہتا ہے اور اس کے ساتھ ایک اپنایت اور محبت رکھتا ہے۔ یہاں تک تو یہ امر خاصا طبعی اور بہت حد تک بے ضرر ہے، کیوں کہ اس سے انسان کو ایک شناخت اور سماج میں سر اٹھا کر جینے کا حوصلہ ملتا ہے ۔ دقتیں وہاں پیدا ہوتی ہیں جب یہ فلسفہ ایک متشدد روپ حاصل کرلے، ہنری تاج فیل کے مطابق ہمارا ذہن خود کو جس گروہ سے متعلق تصور کرتا ہے اسے “داخلی گروہ ” کہتے ہیں اور جو گروہ ہمارے گروہ سے مختلف ہے اور ہم اس سے خود کو متعلق نہیں گردانتے اسے “خارجی گروہ” کہیں گے۔
دیکھتے ہی دیکھتے ہم اپنے داخلی گروہ کا تقابل خارجی گروہ سے کرنے لگتے ہیں اور خارجی گروہ کی خامیوں کو تلاش کرتے ہیں تاکہ ہمیں یہ احساس ہو کہ ہمارا گروہ ہی سب سے اولی اور افضل ہے ۔ پھر ہمارے تمام فیصلہ جات بھی اسی جانب داری کے جذبہ سے سرشار ہوتے ہیں اور ہمارے لیے اچھا وہی ہے جو داخلی ہے یا “ہم” میں سے ہے اور برا وہی ہے جو خارجی ہے یا “وہ” کے زمرے میں شامل ہے ۔ اسی نظریاتی تشدد کی امثال ہمیں جرمنمقابل یہودی تشدد میں نظر آتی ہے یا فلسطین میں صیہونیفوج کے ہاتھوں عرب باشندوں کے قتل و غارت گری میں دکھتی ہے ، یا امریکہ میں سفید فام افراد کے ہاتھوں سیاہ فام لوگوں کے ساتھ امتیازی رویہ میں نظر آتی ہے۔
یہ نظریہ تین مراحل میں کام کرتا ہے۔ اول) سماجی درجہ بندی۔ دوم) سماجی شناخت۔ سوم) سماجی تقابل ۔ یعنی پہلے تو انسان سماج کو مختلف اوصاف کی بنا پر درجہ بند کرتا ہے، گروہوں میں تقسیم کرتا ہے، پھر جس گروہ سے وہ سب سے زیادہ ہم آہنگ ہوتا ہے خود کو اس کا فرد تصور کرتا ہے اور اپنی شناخت تشکیل دیتا ہے، اور بالآخر “ہم” اور “وہ” کے درمیان تقابلی محاذ بناتا ہے ۔محاذ سازی کے اس مرحلے میں افراد اکثر دقیانوسی تصورات کی مدد لیتے ہیں ، یعنی اگر کسی گروہ کے متعلق کوئی پیشگی تصور رائج ہے مثلاً یہ کہ یہ گروہ تشدد پسند ہے یا یہ گروہ دوسروں کے ساتھ نہیں رہ سکتا ، ایسے دقیانوسی تصورات کو خوب ہوا دی جاتی ہے تاکہ فرق مقابل کی کردار کشی کی جا سکے۔ اسی طرح یہ نظریہ انتہا پسندی کا پیش خیمہ ثابت ہوتا ہے ۔
مسلمانان عالم کے خلاف نفرت آمیز منصوبہ بندی
درج بالا بحث میں ہم نے یہ سمجھنے کی کوشش کری کہ یہ فلسفہ کیسے کام کرتا ہے ، مگر یہ جاننا بھی بےحد ضروری ہے کہ کیسے اسی کا استعمال کر کے دنیا کی مخصوص قوموں کے خلاف محاذ آرائی کی جاتی ہے اور انتہا پسندی کو فروغ ملتا ہے ۔یہاں ہم دیکھیں گے کہ کیسے مسلمانان عالم کے خلاف ایک ڈر اور دہشت کا ماحول بنایا جاتا ہے تاکہ اپنے سیاسی یا ذاتی مفادات حاصل کیے جا سکیں۔کرۂ عرض پر جہاں بھی مسلمانوں کے خلاف ماحولسازی ہوتی ہے وہاں لوگوں کو سب سے پہلے یہ بات ازبر کرائی جاتی ہے کہ مسلمان اور ان کے افکار خارجی ہیں، یا وہ اس جگہ کے داخلی نظریات اور عرف کو تہ و بالا کر دیں گے۔ یہیں سے ایک “ہم” اور “وہ” کا تخم ڈالا جاتا ہے ، کہ یہ لوگ “ہم” میں سے نہیں ہیں لہذا ان سے نفرت کرو۔ چہ جاے کہ مسلمان اس مقام پر ہزاروں سالوں سے رہ رہے ہوں یا ان کا اس جگہ کی ثقافت کی تشکیل میں ایک ناقابل فراموش کر دار رہا ہو۔ اس کی ہزاروں مثالیں آپ کو دنیا کی اخباروں میں دیکھنے کو مل جائیں گی۔ کہیں کوئی اکثریت کا سیاسی رہنما اپنے پیروکاروں سے کہ رہا ہے کہ یہ ملک تمہارا ہے اور اس میں کسی اور کے رہنے کی گنجائش ہر گز نہیں ہے ، کہیں کسی ایک نظریے کا حامل شخص اسلام کو بیرونی اور غیر ملکی بتا کر اس کے ماننے والوں پر نشانہ سادھ رہا ہے۔ تو کہیں ایک مذہب کے ماننے والے مسلمانوں کے مقدس مقامات کی پامالی کر رہے ہیں، ان کے گھروں کو زمیں دوز کر رہے ہیں ان کے اداروں کو نذر آتش کرتے نظر آ رہے ہیں۔اسی پر بس نہیں بلکہ مسلم قوم کے نوجوانوں کو دہشت گرد قرار دے کر انہیں موت کے گھاٹ اتارا جا رہا ہے ، تو کہیں ان کیبیٹیوں کو جعلی محبت میں پھنسا کر ان کی آبرو ریزی کرنے کے عزائم پنپ رہے ہیں۔ یہ سب جوکچھ ہو رہا ہے یہ اسی بات کی تو پاداش ہے کہ ایک گروہ کے لوگ یہ سوچنے لگے کے بس جو “ہم” سے تعلق رکھتا ہے اور اس کے زمرے میں شامل ہے اسے ہی موجود رہنے کا حق ہے باقی سب جو اس سے سوا ہے اسے نیست و نابود ہو جانا چاہیے۔ اور یہ سب انتہا پسندی یا تشدد کے ثمرات ہی تو ہیں۔
ملکی اور عالمی پیمانے پر انتہا پسندی کے اثرات
تشدد گر اور انتہا پسند افراد کا یہ طرہ رہا ہے کہ وہ ایسی انتہا پسندی جس سے ان کا اپنا مفاد جڑا ہو اسے قابل تحسین گردانتے ہیں۔ مگر حقیقت کی نگاہ سے دیکھا جاے تو یہ ہر گز دانش مندی نہیں ہے ۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ دنیاوی تغیر و تبدل کے چلتے اب کوئی بھی ملک صرف ایک رنگ، نسل، مذہب یا نظریہ کے حامل افراد کی جاے قرار نہیں رہا بلکہ معاشرے میں ہر طرح کے انسان آپس میں مخلوط رہتے ہیں۔ جس کے چلتے ہر ملک حسب حال تنوع کا پیکر بن چکا ہے۔ پھر اس بات سے بھی کوئی فرار نہیں کہ کوئی بھی ملک فقط سماج کے ایک طبقے کی بدولت نہیں چل سکتا ، اسے اپنے اندر بسنے والے ہر فر د کی ضرورت ہے ۔ مختلف رنگ و نسل، مذہب و فکر کے لوگ اپنے-اپنے مقام پر ملک و معاشرے کی ذمہ داری اٹھاتے ہیں اور اپنا حصہ ادا کرتے ہیں ، اسی سے ملک کا نظم و ضبط بر قرار رہتا ہے اور معیشت راہ ترقی پر گامزن رہتی ہے۔ یعنی ہر فرد اپنے ذریعہ معاشرے کی فلاح و بہبود کی راہیں ہموار کر نے میںاپنے ملک کا ایک نا قابل فراموش حصہ ہے جسے بہرحال نقصان پہنچانا پورے ملک و معاشرے کو ایذا دینے کے مترادف ہے۔
اب لائق غور و فکر یہ امر ہے کہ ملک و معاشرے کے وہ افراد جو اپنے ہم وطن ہم سایہ لوگوں پر حملہ آور ہوتے ہیں، اپنی انتہا پسند فکر کے چلتے اپنے ہی ساتھیوں اور معاشرتی پڑوسیوں کے اوپر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑتے ہیں ، ان کے جان و مال کے خواہاں ہوتے ہیں، وہ حقیقت میں کس کو نقصان پہنچا رہے ہیں؟ کسی ایک فرد یا جماعت کو یا اس پورے معاشرے اور ملک کو جس میں یہ افراد اور جماعتیں بستی ہیں؟ یقیناً اس کا جواب ثانی الذکر ہی ہے ۔ سماجی انتہا پسندی نہ صرف یہ کہ کسی خاص طبقے کے شب و روز کا چین غارت کرتی ہے بلکہ ملک کی معیشت پر بھی اس کا خاصا اثر دیکھا جا سکتا ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ معیشت کا دار و مدار ہے کار و بار پر ، چاہے وہ کسی شہر میں موجود ملبوسات کی دکان ہو یا کوئی ملک گیر ٹرانسپورٹ کا بزنس ، کسی کمپنی میں نوکری کرنے والا شخص ہو یا کسی علاقے کا مزدور ، یہ تمام حصے ہیں اس کار و بار کے جو ملکی معیشت کو مضبوط کرتا ہے ۔ جب انتہا پسندی کے چلتے روز بہ روز قتل و غارت گری کا بازار گرم ہو گا ، لوگوں میں خوف و ہراس کا ماحول بنے گا تو اس کا سیدھا اثر انہی کار و بار پر پڑے گا اور خمیازہ بھگتنا ہو گا ملکی معیشت کو۔
پھر انتہا پسندی اور نفرت آمیز فکر کا دائرہ صرف کسی ملک تک محدود نہیں۔ بلکہ موجودہ وقت میں انتہا پسند تنظیمیں عالمی پیمانے پر کام کرنے کی کوشاں ہیں۔ کسی ایک رنگ و نسل یا کسی ایک مذہب و ملت کے ماننے والوں کے خلاف عالمی پیمانے پر محاذ بنایا جاتا ہے اور اس کے اثرات عالمی سطح پر نمودار ہوتے نظر آتے ہیں۔ بلکہ اس کی مثالیں سر دست موجود ہیں۔ مثلاً مسلمانوں کے خلاف عالمی پیمانے پر “اسلاموفوبیا” پھیلایا جاتا ہے، جس کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ مسلم قوم ایک غیر مہذب اور بربریت پسند قوم ہے جس کی مذہبی کتابوں میں ظلم و تشدد کے ابواب لکھے گیے ہیں اور یہ لوگ جس بھی معاشرے میں قدم رکھتے ہیں اسے زیر و زبر کر دیتے ہیں، حالانکہ یہ بات حقیقت سے کوسوں دور ہے، ہر ذی فہم اسلام سے واقفیت رکھنے والا شخص یہ جانتا ہے کہ اسلام کے معنی ہی امن و سلامتی کے ہیں مسلمان ایک پر امن قوم ہیں، قرآن میں زندگی کو جینے کا بہترین سلیقہ بتایا گیا ہے اور یہ وہ مذہب ہے جس میں ظلم و تشدد کی کوئی جگہ نہیں۔ مگر عالمی پیمانے پر اس مذہب کو بدنام اور اس کے خلاف لوگوں کے جذبات کو مشتعل کرنے کی پوری کوشش کی جاتی ہے کبھی میڈیاپروپاگندا کے ذریعہ تو کبھی نفرت آمیز فلموں اور تقریروں کے ذریعہ۔ یہ ساری انتہا پسندی مسلم قوم کے خلاف اس لیے کی جاتی ہے کہ عالمی سطح پر لوگ ان سے نفرت کریں اور انہیں معاشرے کا حصہ نہ گردانیں، جس کے نتیجہ میں ان پر زندگی کے اسباب تنگ کیے جا سکیں۔ یہاں وہی فلسفہء “ہم” اور “وہ” کار فرما ہوتا ہے جس کا ذکر ہم پہلے کر چکے ہیں، عالمی برادری میں مسلمانوں کو “وہ” بتا کر اور باقی دنیا کو “ہم” کے زمرے میں رکھ کر گویا یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ مسلمان تہذیب و تمدن ہی سے نا بلد ہیں اور عالمی معاشرے میں ان کی ثانوی حیثیت ہونی چاہیے۔ یہ تو محض ایک مثال ہے اس طرح کی متعدد مثالیں موجود ہیں جہاں انتہا پسندی سماج کے کسی ایک طبقے کو نشانہ بناتی ہے اور اس کے اثرات ملک گیر اور عالمی سطح پر محسوس کیے جاتے ہیں۔
انتہا پسندی کی سر کوبی کے لیے نفسیاتی چارہ جوئی
انتہا پسند ی ایک نفسیاتی خرابی ہے جو انسان کے دل و دماغ پر اثر انداز ہوتی ہے ۔ ہاں یہ بات ضرور ہے کہ اس فکر کے چلتے آدمی جو حرکات کرتا ہے اس کے نتائج دنیاے محسوسات میں نظر آتے ہیں۔ یہ سمجھنا اس لیے ضرور ہے کہ اگر انتہا پسندی کی سر کوبی کرنا ہے تو محاذ صرف نفسیاتی یا محض طبیعیاتی نہیں ہو سکتا ، بلکہ جس طرح یہ مرض ہمہ جہتی کا پہلو رکھتا ہے اسی طرح ہمارے اقدامات بھی ہمہ جہت ہونے چاہیے۔ اگر عالمی پیمانے پر امن و سکون کو یقینی بنانا ہے تو معاشرے کے ظاہر و باطن سے انتہا پسندی کا خاتمہ کرنا بے حد ضروری ہے۔ یہاں ہم چند وہ تدابیر ذکر کریں گے جن سے ممکنہ طور پر ملک و معاشرے سے انتہا پسندی کو ختم کیا جا سکتا ہے یا بہت حد تک اس کے اثرات کا دائرہ محدود ہو سکتا ہے ۔
٭ انفرادی اور عائلی سطح پر سب سے پہلے ضرورت ہے علم و آگاہی کو عام کرنے کی۔ کس طرح ایک پر امن ماحول معاشرے کی فلاح و بہبود کے لیے ناگزیر ہے یہ ہر فرد کو معلوم ہونا چاہیے اور نفرتیں کیسے پھلتے پھولتے ماحول کو غارت کر دیتی ہیں اس کا شعور عام ہونا چاہیے۔
٭ معاشرتی سطح پر سب سے پہلے ہم اپنے ہم سایہ افراد کو ایک پر امن اور نفرت سے خالی ماحول فراہم کریں، ایسا کرنے سے زمینی طور پر نفرتوں کا خاتمہ ہو گا اور معاشرے میں مثبت تبدیلیاں پیدا ہوں گی ۔ظاہر ہے کہ اس تدبیر میں ملک و ملت کا ہر فرد شامل ہے اور یہ سب کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔
٭ ایک پر امن ماحول کے ساتھ تعلیم و تربیت بھی بے حد ضروری ہے ۔ نوجوان طبقے میں اشتہارات، پروگرام ، اور سوشل میڈیا کے ذریعے بھائی چارے کی تعلیم اور نفرت کو پرورش دینے والی سوچ سے بچنے کی آگاہی دنیا اشد ضروری ہے ۔
٭ ملک گیر تنظیمیں اپنی -اپنی ملی ذمہ داری سمجھتے ہوے اس امر کی کوشش کریں کہ عوامی تنازعات ہر گز ہم اور وہ کا رنگ نہ حاصل کریں اور لوگوں کے درمیاں ہوئی انفرادی کشمکش کہیں گروہوں کو بر سر پیکار نہ کر دے۔ اسی کے ساتھ جو نکتہ ہم نے ماحولیات کے حوالے سے ذکر کیا ہے وہ تنظیموں پر بھی جاری ہوتا ہے کہ ایک پر امن اور پر سکون ماحول فراہم کرنا ہم سب کا انفرادی اور اجتماعی فریضہ ہے۔
٭ حکومتیں نفرت کے پروردہ جرائم کے خلاف سخت ترین قوانین بنائیں ، اور اگر قوانین موجود ہیں تو ان کے نفاذ کو یقینی بنائیں تاکہ کوئی بھی فرد ، گروہ یا تنظیم نفرت کی کشت پر قصر تعمیر کرنے کی ہرگز کوشش نہ کرے۔
٭ انسانی حقوق کی حفاظت کے لیے قائم کردہ ادارے عالمی پیمانے پر ایسے اسباب فراہم کریں جن کے استعمال سے انتہا پسندی اور نفرتوں کو فروغ دینے والے افراد کا رد بلیغ ہو سکے اور عالمی برادری میں امن و سکون کا ماحول بنا رہے۔ جو افراد نفرتوں کی بولی بولتے ہیں انہیں ہر گز عالمی پلیٹ فارم حاصل نہیں ہونا چاہیے اور اگر وہ عالمی سطح پر نفرتوں کو عام کریں تو ان کا رد بھی اسی پلیٹ فارم کے ذریعہ کیا جانا چاہیے۔
مجھے یقین ہے کہ اگر معاشرے کا ہر فرد اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوے صحیح اقدامات اٹھاے تو دنیا سے انتہا پسندی کے جراثیم ختم کیے جا سکتے ہیں۔ اس مختصر سیگفتگو میں آپ اور ہم نے سب سے پہلے انسان اور اس کی طبیعت کے حوالے سے حقائق کو ملاحظہ فرمایا ، بعد ہ انتہا پسندی اور اس کے اسباب پر غور و فکر کیا، فلسفہ ہم اور وہ کو سمجھا اور اس کا کردار انتہا پسندی میں کیوں کر نمایاں ہوتا ہے اسے جانا، اسی کی چند مثالیں ملاحظہ فرمائی اور بالآخر انتہا پسند فکر کے تدارک کے لیے چند تدابیر د حاصل کی۔ آخر امر، یہ کہنا حکمت سے خالی نہیں کہ ایک پر امن معاشرہ ہی ایک ترقی یافتہ قوم کی بنیاد رکھتا ہے اور اگر بنی آدم ترقی کی راہیں ہموار کرنا چاہتے ہیں تو انہیں معاشرتی انتہا پسندی کا خاتمہ کر عدل و انصاف اور محبت و اخوت جیسی قدروں پر معاشرے کی بنیاد رکھنا نا گزیر ہے۔