نوے کی دہائی میں دلت ، غریب و پچھڑوں کے بیچ یہ نعرہ عام تھا ” ووٹ ہمارا، راج تمہارا نہیں چلے گا “، آج پھر سے ایک بار یہی حالت بنتی نظر آ رہی ہے کیونکہ 85 فیصدی بہوجن سماج کے ووٹ پر ہی بھاجپا حکومت میں ہے۔ اس لئے آج ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ووٹ بہوجن سماج کا اور راج منو واد کا ہے، ایسا بھاجپا بہوجن سماج کو ہندو واد کے دائرہ میں لا کر کر رہی ہے۔ مسٹر چندرشیکھر نے اس کھیل پر سے پردہ اٹھا دیا ہے جس سے منو وادی چراغ پا ہے
محمد رفیع
9931011524
بہار کے وزیر تعلیم ہیرو ہو گئے ہیں۔ ملک کے مختلف حصوں میں ان کا پتلا جلایا جارہا ہے اور ان پر مقدمات بھی درج ہو رہے ہیں۔ کوئی ان کو اسلام مذہب اختیار کر لینے کا مشورہ دے رہا ہے تو کوئی پوچھتا ہے کہ قرآن کی کسی آیت پر بھی آپ کو اعتراض ہے کیا۔ انہیں ہندووادی تنظیمیں کے ذریعہ مولانا چندرشیکھر اور چندو خان تک کہا جا رہا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ M اور Y مل کر ہندو مذہب کی توہین کر رہے ہیں۔ آگ صرف ایک طرف ہی نہیں لگی ہے دوسری طرف بھی لوگ شدت میں ہیں۔ بی آر اے بہار یونیورسٹی مظفر پور، سیمانچل اور پٹنہ کے امبیڈکر ہاسٹل میں وزیر تعلیم پروفیسر چندرشیکھر کی حمایت میں اور منواسمرتی، رام چرت مانس کے ذریعہ بوئے گئے نفرت کو بہوجن سماج کے لوگ اب برداشت کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ یہ آگ تیزی سے پورے ملک کو اپنی چپیٹ میں لے رہی ہے۔ تمام ٹی وی چینلس و یو ٹیوب پر پروفیسر چندرشیکھر، منواسمرتی و رام چرت مانس پر بحث کا سلسلہ جاری ہے۔ منواسمرتی کے حمایتی پروفیسر چندرشیکھر کو چوپائی اور دوہا کی سمجھ نہ ہونے اور ادھوری تعلیم ہونے کا الزام لگا کر معاملے کو ہندو – مسلم رنگ دینے کی کوشش میں ہیں تو وہیں چندرشیکھر و ان کے حمایتی منواسمرتی و رام چرت مانس کو بہوجن سماج کی توہین بتا کر اپنے مؤقف پر قائم ہیں۔ پروفیسر چندرشیکھر کے بیان کے بعد لوگوں کی نظر وزیر اعلی نتیش کمار و نائب وزیر اعلی تیجسوی پرشاد یادو پر ٹکی تھی کہ ان کا رد عمل کیا ہوتا ہے وزیر تعلیم چندرشیکھر کی کرسی جائے گی یا برقرار رہے گی۔ بھلے ہی جد یو اور راجد کے کچھ رہنماؤں نے پروفیسر چندرشیکھر کی تنقید کی ہو لیکن پارٹی سطح پر انہیں حمایت حاصل ہو رہی ہے۔ تیجسوی پرشاد یادو نے صاف لفظوں میں کہا کہ ہندوستان میں سب سے پاکیزہ کتاب بابا صاحب بھیم راؤ امبیڈکر کی ترتیب دی گئی ہندوستان کا آئین ہے۔ وہیں جد یو کی طرف سے اسے راجد کا معاملہ بتا کر پلا جھاڑ لیا ہے۔ وزیر اعلی نتیش کمار اور نائب وزیر اعلی تیجسوی پرشاد یادو نے وزیر تعلیم کے بیان پر سیدھے سیدھے جواب نہیں دیا، صرف یہ کہا کہ ہم سبھی مذاہب کا احترام کرتے ہیں اور کسی کو کسی کی دل شکنی نہیں کرنی چاہئے اور یہ سب کوئی سوال نہیں ہے۔ ان تمام باتوں اور حالات کا جائزہ لینے سے صاف پتہ چلتا ہے کہ مہاگٹھ بندھن نے سال 2024 کی تیاری شروع کر دی ہے اور اس سے قبل 1990 کا منڈل کمنڈل والی صورت بننے کے آثار دکھنے لگے ہیں۔
بھاجپا آر ایس ایس کی ذیلی تنظیم ہے۔ اس کی اصل پونچی ہندو واد، منو واد، رام چرت مانس اور گولوالکر کی آئیڈیالوجی ہے۔ راجد رہنما و وزیر تعلیم بہار سرکار پروفیسر چندرشیکھر نے نالندہ یونیورسٹی کے دکشانت تقریب میں منواسمرتی ، رام چرت مانس اور گولوالکر پر کھل کر کہا کہ یہ نفرت پھیلانے والے ہیں اور ملک نفرت سے نہیں محبت سے چلتا ہے۔ پروفیسر چندرشیکھر کا یہ بیان ملک بھر میں آگ کی طرح پھیل گیا اور سین بدل گیا ملک میں بھاجپا کے ذریعہ صرف ہندو – مسلم اور ہندوستان – پاکستان کر کے نفرت کا ماحول قائم کیا گیا تھا وہ اب برہمن واد اور بہوجن سماج پر سمٹ گیا۔ چندرشیکھر کے بیان سے بھاجپا تلملا اٹھی لگا جیسے چندرشیکھر نے وہ کر دیا جو کام کبھی لالو پرساد یادو نے اڈوانی جی کے رتھ یاترا کو روک کر کیا تھا۔ بہوجن سماج کا ہر طبقہ، خواہ وہ دانشور طبقہ ہو کہ غیر دانشور طبقہ سب کوئی پروفیسر چندرشیکھر کی حمایت کر رہے ہیں اور بہوجن سماج کی توہین کرنے والے منواسمرتی کی کاپیاں جلا رہے ہیں۔ پروفیسر چندرشیکھر کے بیان سے بھاجپا اور سنگھ پریوار کو یہ خطرہ محسوس ہو رہا ہے کہ دلتوں کو ہندوتوا کے دائرہ میں لا کر جس طرح اس کے ووٹ پر حکومت کھڑی کر رکھی ہے وہ طلسم اب ٹوٹنے والا ہے۔ نوے کی دہائی میں دلت ، غریب و پچھڑوں کے بیچ یہ نعرہ عام تھا ” ووٹ ہمارا، راج تمہارا نہیں چلے گا “، آج پھر سے ایک بار یہی حالت بنتی نظر آ رہی ہے کیونکہ 85 فیصدی بہوجن سماج کے ووٹ پر ہی بھاجپا حکومت میں ہے۔ اس لئے آج ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ووٹ بہوجن سماج کا اور راج منو واد کا ہے، ایسا بھاجپا بہوجن سماج کو ہندو واد کے دائرہ میں لا کر کر رہی ہے۔ مسٹر چندرشیکھر نے اس کھیل پر سے پردہ اٹھا دیا ہے جس سے منو وادی چراغ پا ہے۔ اس ضمن میں دلی یونیورسٹی کے پروفیسر رتن لال نے کہا کہ ذاتوں کا فرق تو آپ نے ہی پیدا کیا ہے۔ اس کا مزہ آپ نے لیا ہے اور آج critical examin ہو رہا ہے تو تکلیف ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا ایک ایک ورق کا examination ہونا چاہئے۔ ذات کی بنیاد تو آپ کی کتابوں سے ہی ہوا ہے، ایک بھی مسلم یا کرسچن text آپ بتا دیں جس سے ذات کی بنیاد ڈالی جا سکے، نہیں ہے۔ جے این یو کے پروفیسر (ڈاکٹر) راجیش پاسوان گوسوامی تلسی داس کو کوئی مذہبی رہنما نہیں مانتے بلکہ ایک کوی (شاعر) مانتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس وقت کے سماج میں یہ تھا کہ دلت ذات کو اگر تعلیم دی جاتی ہے تو ایسا ہے جیسے سانپ کو دودھ پلانا جس سے وہ اور زہریلا ہو جاتا ہے۔ جناب پاسوان بتاتے ہیں کہ عہد وسطیٰ میں ہی نہیں بلکہ آج بھی یہ سونچ کام کر رہی ہے، دلتوں کو، محروموں کو، عورتوں کو اور جاہلوں کو کمتر مانتی ہے۔ انہوں نے یہ بہت بڑی بات کہہ دی کہ آج بھی وہ برہمن واد، منو واد کا شکار ہیں۔ یہ سچائی ہے کہ بھارت میں مسلمانوں اور دلتوں کی ایک ہی سیاسی حالت ہے۔ دونوں جماعتیں منو وادیوں کی سیاست کا بری طرح شکار ہوئی ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ دلتوں اور مسلمانوں کا رشتہ خون کا ہے۔ منو وادیوں نے ہندوستان کے دلتوں کو اتنا ذلیل کیا کہ اس کی بڑی آبادی نے اسلام قبول کر لیا اس کی نسل ہندوستان کے کونے کونے میں پھیل گئی۔ اس لئے سوشل پالیسی میکر کو لگتا ہے کہ اگر وہ مسلمانوں کے ساتھ غیر منو وادیوں کی اتحاد قائم کئی گئی تو 2024 کے عام انتخابات میں بھاجپا کے گڑھ کو توڑنا، اس سے حکومت چھیننا آسان ہوگا۔ عظیم اتحاد میں نتیش کمار کے شامل ہونے کے بعد سے ملک میں حزب اختلاف کی تمام سیاسی جماعتیں بھاجپا حکومت کو سال 2024 میں حکومت سے باہر کرنے کی جو مہم چلا رکھی ہے اس میں پروفیسر چندرشیکھر کے بیان کی اہمیت کو سنجیدگی سے دیکھا جا رہا ہے۔